درپیش چیلنجز اور میڈیا کا کردار

456

کیا ہمارا قومی مزاج بدل رہا ہے۔ یا جو کچھ مزاج میں تھا وہ اُبھر کر اور کھل کر سامنے آرہا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے دل بڑی تکلیف میں ہے۔ پورے ملک میں قیادت کا بحران ہے جن کو رہنمائی کرنی تھی وہ محاذ آرائی کررہے ہیں جن کو محاذ پر ہونا تھا انہوں نے ملک کے اندر محاذ بنا رکھا ہے، جن کو فیصلے دیے تھے وہ بول رہے ہیں، جن کو اسمبلیوں میں بولنا تھا وہ سڑکوں پر بول رہے ہیں اور جن کو صحیح نمائندے منتخب کرنے تھے وہ ٹی وی کے سامنے بیٹھے ٹاک شو میں وقت ضائع کررہے ہیں۔ میڈیا تماشا دکھا رہا ہے اور لوگ اپنے پیسوں سے یہ تماشے دیکھ رہے ہیں۔ میری مراد چیف جسٹس، نواز شریف، اپوزیشن، ایم کیو ایم اور میڈیا کے تماشوں سے ہے جو کھیل ہورہا ہے کیا یہ ہونا چاہیے تھا؟۔ میاں نواز شریف روزانہ ایک ہی سبق دہرا رہے ہیں۔ عدلیہ خراب ہے فیصلے دیے نہیں جارہے دلوائے جارہے ہیں، انتقام لیا جارہا ہے، فیصلہ طے شدہ تھا لوگ ہمیں ووٹ دیں ہم سب بدل کر رکھ دیں گے۔ لیکن کیا بدل کر رکھ دیں گے، اگر آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں 1973ء کے دستور کو تسلیم کرتے ہیں اس کا دم بھرتے ہیں اس کے تحفظ کی قسمیں کھاتے ہیں تو بھائی اسلامی جمہوریہ کے دستور کی دفعات 62 اور 63 کو نکال کر پھینک تو نہیں سکتے، شاید اسی لیے آپ ووٹ مانگ رہے ہیں سب کچھ بدل دیں گے۔ نااہلی کو نہیں بلکہ دفعات 62 اور 63 کو۔ صرف اپنے لیے آنے والے دور کو اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔ ویسے یہ فیصلہ بھی اندھیروں میں دھکیلنے والا ہوگا۔ میاں صاحب کے خیال میں وہ پورے پاکستان میں تنہا اس ملک کے محافظ ہیں۔ ان کے بغیر یہ ملک نہیں چل سکتا۔ اس لیے وہ اور ان کے چند ساتھی ہر صورت انہیں چوتھی بار بھی وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں لیکن تین بار میں کیا ہوا؟؟۔
ایسا لگ رہا ہوگا کہ یہ سارا کالم میاں نواز شریف کے خلاف ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ عدلیہ کی جانب سے جو ریمارکس دیے جارہے ہیں سماجی تقریبات میں تقریروں کا رجحان یا ان کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے جس کے بعد اخبارات اور ٹی وی کو مواد ملنے لگا اور جب بکری نے مارا ہے بکرے کو سینگ۔۔۔ تو بکرا بھی مارے گا۔۔۔ کے مصداق فوری جواب آتا ہے۔ کوئی بار بار سڑکوں پر آنے کی بات کررہا ہے، سینیٹ کے الیکشن میں سودے بازی اور جوڑ توڑ نے سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں یہ تاثر پیدا ہوگیا ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹرین برائے فروخت ہیں۔ لیکن اس وقت یہ بات یا مسئلہ زیر بحث نہیں ہے بلکہ یہ بات تشویش ناک ہے کہ ادارے کھل کر لڑائی پر اُتر آئے ہیں۔ کوئی پردہ حائل نہیں رہا، کھل کر ایک دوسرے کو مطعون کیا جارہا ہے۔ ٹی وی چینلوں کا رونا تو اپنی جگہ ہے اس خرابی کے اثرات گزشتہ دنوں سی پی این ای کے ایک سیمینار یا کانفرنس میں بھرپور طریقے سے سامنے آئے۔ سی پی این ای نے ملک کو درپیش چیلنجوں اور میڈیا کا کردار کے موضوع پر کانفرنس رکھی تھی۔ بڑی بروقت تھی۔ موضوع بھی اہم تھا، اس پر مدبرانہ گفتگو ہونی چاہیے تھی قوم کو رہنمائی ملنی چاہیے تھی لیکن پوری کانفرنس میں دو مقررین کے سوا کسی نے متوازن گفتگو نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کی شیری رحمن نے مولانا فضل الرحمن کی تقریر کا جواب دینا فریضہ سمجھا اور اپنا سارا زور مولانا کو غلط، پی ٹی آئی کو غلط اور مسلم لیگ (ن) کو غلط ثابت کرنے میں صرف کیا۔ تو پھر پی ٹی آئی والے کیوں پیچھے رہتے۔ شبلی فراز بار بار احمد فراز کا حوالہ دے کر یہ بتانے کی کوشش تو کررہے تھے کہ وہ بڑے شاعر تھے۔ لیکن ان کا زور بیان بھی مولانا فضل الرحمن اور پی پی پی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) یا حکومت پر تھا۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی سب کو پھانسی لگادیں۔ پُرجوش خطاب کرتے چلے گئے۔ مریم اورنگزیب وزیر مملکت ہیں انہیں حکومت کا دفاع کرنا تھا۔ لیکن وہ بھی عدلیہ، پی ٹی آئی اور پی پی پی کے خلاف بولتی رہیں۔ مسئلہ کیا تھا؟ مسئلہ تو ملک کو درپیش چیلنجز تھے اور یہی چیلنج تو درپیش ہے کہ سب صرف الزامات کے کھیل میں مصروف ہیں۔ پوری کانفرنس گویا ملک کو درپیش چیلنجوں کا مکمل نمونہ بن جاتی اگر ابتدا میں مولانا فضل الرحمن اور اختتام پر سراج الحق مدبرانہ گفتگو نہ کرتے۔ مولانا فضل الرحمن نے بہت واضح توجہ دلائی کہ یہ جو ادارے ایک دوسرے پر الزامات لگارہے ہیں جنگ کی باتیں ہورہی ہیں، ایک دوسرے کو چور کہا جارہا ہے، اپوزیشن آج حکومت کا جو چہرہ مسخ کررہی ہے اس کی جو تصویر بنارہی ہے کل وہ خود حکومت میں ہوگی تو یہی تصور اس کی ہوگی۔ کیا آپ اپنی تصویر بگاڑ رہے ہیں، کیا عدالتیں صرف یہی چند معاملات فیصل کر رہی ہیں باقی کوئی مسئلہ اس ملک میں نہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ تمام ادارے اپنے اپنے دائرے میں رہیں اور میڈیا حقائق تبدیل نہ کرے۔ ذمے داری کا مظاہرہ کرے، دنیا بھر میں لوگ ملک کے چہرے کو اچھا بناتے ہیں، بس ان سے غلطی یہ ہوگئی کہ انہوں نے اسلام کا نام لے لیا اور کہا کہ اپنے مرکز سے ہٹیں گے تو یہ ساری خرابیاں آئیں گی۔ لہٰذا پاکستان جس مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا اس کو اس مقصد کے لیے استعمال کیاجائے چوں کہ وہ ابتدائی مقرر تھے تو آخر تک سب کو ان کا اسلام ہی یاد رہا لیکن خوش قسمتی یا ان لوگوں کی بدقسمتی جو آپس میں لڑ رہے تھے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق آخری مقرر تھے۔ وہ آخری تھے نہیں بلکہ اس طرح آخری ہوگئے کہ سب کو اپنی اپنی غزل سنا کر جانے کی جلدی تھی۔ سو سب اپنی اپنی سنا کر چلے گئے جب کہ سراج الحق پشاور سے صرف اس کانفرنس کے لیے آئے تھے۔ یہ بھی اتفاق یا حسن اتفاق تھا کہ جو باتیں ڈیڑھ گھنٹے قبل مولانا فضل الرحمن کہہ گئے تھے انہیں سنے بغیر سراج الحق بھی وہی باتیں کہہ رہے تھے۔ انہوں نے بھی اداروں کی لڑائی پر تشویش کا اظہار کیا لیکن یہ بات بھی کہی کہ عوام کا اصل مسئلہ وہ نہیں جس کا ملک میں شور ہے۔ اگر ان کی تقریر کے دوران کوئی ٹی وی کیمرہ ہوٹل کے بیرون سائڈ میں کھڑے کیمرامینوں، غریب اخبار نویسوں اور عام افراد کی طرف ہوتا تو ان کے چہرے کے تاثرات اور سراج صاحب کی گفتگو پر ان کے ردعمل کو ان کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں میں صاف دیکھا جاسکتا تھا۔ سراج صاحب نے بات ہی ایسی کی تھی۔ وہ پاناما، اقامہ یا فیصلے کی بات نہیں کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کا مسئلہ دو وقت کی
روٹی، بچوں کے اسکول کی فیس، دودھ، دال، سبزی ہے۔ اس کو تو اس سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔ وہ بے چارہ اسکول کی فیس دیتا ہے تو مکان کا کرایہ نہیں بچتا، کرایہ دے دے تو فیس اور گھر کے اخراجات نہیں پورے ہوتے۔ اسے کیا پتا اقاما کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے بالادستی کے حوالے سے بھی کہا کہ ادارے بالادستی کی جنگ کیوں لڑ رہے ہیں، اس ملک میں بالادست صرف اللہ کی ذات ہے، قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون آئین کی رو سے نہیں بن سکتا۔ سب مل کر اللہ کی بالادستی قبول کرلیں اور سب سے اچھی اور پیاری بات یہ کہ اسلام سے شرمائیں نہیں۔ اسے اپنے اوپر بھی نافذ کریں اور اسے ملک پر بھی نافذ کریں اور اسلام کو مولوی کے نام سے نہیں، فرقے کے نام سے نہیں، مدرسے اور فقہ کے پیمانے پر نہیں ناپیں۔ لوگ تعلیم یافتہ ہیں، سو اسلام کا مطالعہ کریں اور اسے نافذ کریں۔ پاکستان اسلامی ہوگا تو خوشحال ہوگا، قوم نے فوجی، جمہوری، سوشلسٹ، کمیونسٹ، آمرانہ سارے نظام دیکھ لیے اب اسلام کو آنے دیں۔ سب مسائل حل ہوجائیں گے۔ آخری بات بھی یہی تھی کہ میڈیا بھی اس میں تعاون کرے، مگر کیسے یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمارے میڈیا کا تو ایجنڈا ہی کچھ اور ہے۔