برفباری اور بارش

383

عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان میں بھی موسموں کے ردوبدل کا شیڈول تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، ایک زمانہ تھا کہ سردیاں وسط اکتوبر سے شروع ہوجاتی تھیں۔ نومبر میں لوگ سو میٹر کے اوپر گرم کوٹ پہننا شروع کردیتے تھے۔ دسمبر میں جاڑا پورے رعب ؟؟؟؟ کے ساتھ آن دھمکتا تھا۔ دن کہر آلود ہوجاتے تھے، جب تک قدرتی گیس گھروں میں نہیں پہنچی تھی، کوئلے اور لکڑی کے بُرادے کی انگیٹھیاں کمروں میں جلائی جاتیں اور شام ڈھلتے ہی رات کا کھانا بھی ان انگیٹھیوں کے گرد بیٹھ کر کھایا جاتا، کھانا بالعموم عشا سے پہلے کھالیا جاتا اور عشا کے بعد سونے کی تیاری شروع ہوجاتی تھی۔ ٹیلیفویژن آیا تو راتیں جاگنے لگیں اور زندگی کے معمولات ہی بدل گئے۔ پھر موسم نے بھی کروٹ بدل لی، اکتوبر کیا نومبر میں بھی سردی آنے کا نام نہیں لیتی۔ حد یہ کہ اب دسمبر میں بھی گلابی سردی پڑتی ہے اور لوگ ہلکے پھلکے سویٹر سے کام چلا لیتے ہیں۔ جنوری میں نیا سال شروع ہوتا ہے تو موسم کے تیور بھی بدلنے لگتے ہیں۔ بیرونی دنیا سے خبر آئی ہے کہ پورا یورپ، امریکا اور کینیڈا برفانی طوفان کی زد میں ہیں۔ سڑکیں برف سے اَٹ گئی ہیں، ٹرینیں، ہوائی سروس اور نقل و حرکت کے دیگر ذرائع عارضی طور پر محدود ہوگئے ہیں لیکن یہ صورت حال تادیر قائم نہیں رہتی، اہل مغرب برف کے اس طوفان پر جلد قابو پالیتے ہیں اور زندگی رواں دواں ہوجاتی ہے۔ ایشیائی ملکوں کو موسم سرما میں اس صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہاں برفباری ہوتی ضرور ہے لیکن صرف پہاڑی علاقوں میں، پاکستان میں دنیا کی پانچ بلند ترین پہاڑی چوٹیاں ہیں جو سارا سال برف کی چادر اوڑھے رہتی ہیں اور دنیا بھر سے کوہ پیما انہیں سر کرنے کی آرزو میں جان کی بازی لگاتے ہیں۔ جب کہ مری، سوات، نتھیا گلی، ایوبیا، گلیات، اسکردو اور دیگر شمالی علاقوں میں برفباری ہوتی ہے تو پورے پاکستان سے سیاح اِن علاقوں کا رُخ کرتے اور برفباری کے خوبصورت مناطر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ برف سفید ذروں کی صورت میں آسمان سے گرتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے علاقے میں سفید چادر سی بچھ جاتی ہے، پھر یہ چادر دبیز ہوتی جاتی ہے اور محکمہ موسمیات ہمیں بتاتا ہے کہ فلاں علاقے میں اتنے فٹ برف پڑچکی ہے، اب کی دفعہ برفباری کا موسم بھی تاخیر سے شروع ہوا ہے، میدانی علاقوں میں جب لوگ فروری کے پہلے ہفتے میں جاڑے کو رُخصت کرنے کی تیاری کررہے تھے اور پنجابی محاورے کے مطابق ’’گیسنت پالا اڑنت‘‘ کا راگ الاپا جارہا تھا تو پہاڑی علاقوں سے خبر آئی کہ وہاں برفباری شروع ہوگئی ہے اور مری، نتھیا گلی اور دیگر علاقوں میں تین فٹ تک برف پڑ چکی ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سیٹلائٹ کے ذریعے دنیا کے کسی بھی علاقے کی منظر کشی کی جاسکتی ہے، ٹی وی چینلوں نے بھی برفباری کے مناظر اپنے ناظرین کو دکھائے اور ہم گھر بیٹھے ان مناظر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ہم جب یہ سطور لکھ رہے ہیں تو برفباری کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
برف باری پہاڑی علاقوں میں ہو تو اس کا اثر میدانی علاقوں مین بھی پڑتا ہے اور برفانی ہوائیں چلنے سے سردی بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ مشہور ہے کہ کوئٹہ میں برف پڑ رہی ہو تو کراچی میں بھی کوئٹہ کی ہوا اپنا رنگ جماتی ہے اور اہل کراچی تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔ ہم مری کے پڑوس میں رہتے ہیں بلکہ مری اور کہوٹہ قومی اسمبلی کے ایک ہی انتخابی حلقے میں واقع ہیں۔ کہوٹہ بھی اگرچہ نیم پہاڑی علاقہ ہے لیکن یہاں برفباری نہیں ہوتی، البتہ مری کی برفباری سے یہ علاقہ بُری طرح متاثر ہوتا ہے اور برفانی ہوائیں پورے شہر کو جکڑ لیتی ہیں۔ اب کی دفعہ موسم سرما میں بارشیں بہت کم ہوئیں، بارانی علاقوں میں فصلوں کا سارا انحصار بارش پر ہوتا ہے، بارش بروقت نہ ہو تو کھیتوں میں خاک اُڑنے لگتی ہے، ندی نالے سوکھ جاتے ہیں اور کنوئیں خشک ہوجاتے ہیں، پانی کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بارش ہوتی ہے، پانی آسمان سے برستا ہے تو مردہ زمین جی اُٹھتی ہے، کھیت لہلہانے لگتے ہیں، درخت دھل جاتے ہیں، پتوں میں نکھار آجاتا ہے اور فضا میں ایک تازگی اور آسودگی کا احساس ہوتا ہے۔ بارانی علاقے گزشتہ ڈھائی تین ماہ سے بارش کو ترس رہے تھے۔ کسانوں کی نگاہیں آسمان کی طرف اور ہاتھ اپنے ربّ کے حضور اُٹھے ہوئے تھے، مساجد میں ہر نماز کے بعد آہ و زاری کے ساتھ دُعائیں مانگی جارہی تھیں، کھلے میدانوں میں نماز استسقا کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، آخر رحمتِ حسن نے جوش مارا، بادل اُمڈ کر آئے، آسمان پر بجلی کڑکی اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ کم و بیش چوبیس گھنٹے تک لگاتار بارش ہوتی رہی، لوگوں کے چہرے کھل اُٹھے اور زمین پر زندگی رقص کرنے لگی۔ بارش کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں خواہ کیسی ہی سائنسی توجیہہ کی جائے لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ اس کائنات پر اس کے مالک کی مرضی چل رہی ہے، وہی بارش برسانے کا اختیار بھی رکھتا ہے اور بارش کو روکنے کا بھی۔ وہ اپنا یہ اختیار الل ٹپ استعمال نہیں کرتا بلکہ اس نے اس کے لیے گناہ و ثواب اور نیکی و بدی کا ایک پیمانہ مقرر کر رکھا ہے اور اس پیمانے میں تول کر وہ اپنے اختیار کو بروئے کار لاتا ہے۔ اس زمین پر جس خطے کے لوگ سرکش اور نافرمان ہوجائیں اور کھلم کھلا اس کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے لگیں تو وہ ان پر اپنے انعامات کو روک دیتا ہے۔ جب معاملہ حد سے بڑھ جائے تو مالک حقیقی انعامات ہی نہیں روکتا سزا بھی دیتا ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے اسلام آباد میں ہر دو تین دن کے بعد بارش ہوجاتی تھی، اب مہینوں نہیں ہوتی، بعض اوقات بادل گھر کر آتے ہیں لیکن بن برسے گزر جاتے ہیں، آخر ایسا کیوں ہے؟۔ یہی حال اور بہت سے علاقوں کا ہے، ہم کھلی آنکھ سے دیکھیں تو ہم سے مالک حقیقی کے بہت سے احکامات کی خلاف ورزی ہورہی ہے، ایک سود کو ہی لیں اسلام آباد میں بیٹھی حکومت اسے ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، حالاں کہ سود برقرار رکھنے کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ بارشیں کم ہوگئی ہیں، زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے، دریا خشک ہوگئے ہیں، لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ یہ سب مالک حقیقی کی طرف سے وارننگ نہیں تو اور کیا ہے؟