خود کشی کے نفسیاتی، سماجی اور معاشی محرکات 

511

(1)دینی شعور وآگہی کا فقدان:
ہمارے معاشرے میں حال ہی میں رونما ہونے والے خود کشی کے رحجان اور اس لہر کا سب سے بڑا سبب دینی تعلیمات سے دوری اور دینی شعور کا فقدان ہے۔ شعور پیدا کرنے کے لیے سب سے مؤثر شعبہ الیکٹرونک میڈیا ہے، وہ فحاشی، عریانی، تشدد، دہشت اور شر کے فروغ میں تو ہمہ وقت مصروف ہے، صحیح دینی شعور پیدا کرنا اس کی ترجیحات میں نہیں ہے۔
میڈیا بنیادی طور پر کارپوریٹ کلچرکا نمائندہ ہے اور اس کا مؤثر حصہ ہے، اس لیے اس کی ترجیحی فہرست میں صرف ایسے پروگرام آتے ہیں جو لوگوں کے سفلی جذبات کو ابھاریں، ناپختہ ذہن اسکرین سے جڑے رہیں، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے اثرات معاشرے پر کیا مرتّب ہوتے ہیں۔ جب وہ ملّی مسائل کی دہائی دیتا ہے، تو اس میں بھی کاروباری پہلو غالب ہوتا ہے۔ ہماری نظر میں دینی آگہی کے فروغ کو ترجیحِ اول ملنی چاہیے، کیوں کہ خود کشی کا مرتکب شخص اپنی عاقبت کو تو برباد کرتا ہی ہے، اپنی ذات سے وابستہ کئی دوسرے افراد کی زندگیوں کو بھی ناقابلِ برداشت اذیت اور بے شمار مسائل سے دوچار کردیتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے تو ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں کہ ماں باپ نے خود کشی سے پہلے اپنی بے قصور اولاد کوبھی زندگی کے حق سے محروم کردیا، یعنی خود تو حرام موت کا شکار ہوئے، قتلِ ناحق کا کبیرہ گناہ بھی اپنے سر لیا۔
(2) معاشی مسئلہ:
خود کشی کے بہت سے واقعات کے پسِ پشت بے روزگاری، تنگ دستی اور معاشی محرومیوں کے عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی ذمے داری وقت کے اہلِ اقتدار اور معاشرے کے خوش حال طبقات پر عائد ہوتی ہے۔ یہ چند ہزار افراد ملک کے اسّی فی صد وسائل پر قابض ہیں، بدقسمتی سے ہمارے اہلِ اقتدار بھی اسی طبقے کا حصہ بلکہ سرخیل ہیں۔ اسلام ارتکازِ دولت کے خلاف ہے کہ چند لوگ سارے وسائل پر قابض ہوجائیں اور لوگوں کی اکثریت روٹی،کپڑا اور مکان کی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ایسا نہ ہو کہ (ساری دولت) مالداروں کے درمیان ہی گردش کرتی رہے، (الحشر: ۷)‘‘۔ اب تو عالمی سطح پر بھی اس طرح کے سروے سامنے آرہے ہیں کہ پوری دنیا میں محدود لوگ اسّی فی صد وسائل پر قابض ہیں اور باقی بیس فی صد پر تقریباً ساڑھے سات ارب انسان قناعت کیے ہوئے ہیں۔
اسلام دولت اور وسائلِ رزق کی تقسیم کا حکم دیتا ہے تاکہ ان کا فیض ساری انسانیت کے لیے عام ہو۔ اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان اپنی جان کا مالک ومختار نہیں بلکہ صرف متصرف ہے، مال ودولت کے بارے میں بھی اس کا نظریہ یہی ہے کہ اس کا مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے، انسانوں کی طرف ملکیت کی نسبت مَجازاً ہے، اسلام نے مال کمانے کے لیے حلال وحرام کے احکام دیے اورخرچ کرنے کے لیے فرائض وواجبات اور فضل واستحسان کے بڑے جامع اصول مقرر کیے ہیں اور محرمات وممنوعات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور کیا سبب ہے کہ تم (اپنی دولت کو) راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے، حالاں کہ زمین وآسمان میں جو کچھ ہے وہ (درحقیقت) اللہ ہی کی ملکیت ہے، (الحدید: ۱۰)‘‘۔ اور اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ غرباء کو اس سوچ کے ساتھ نہ دو کہ تم ان پر احسان کر رہے ہو، بلکہ یہ سمجھ کردو کہ تم اپنے مال میں سے اُن کا حق انہیں لوٹا رہے ہو، قرآنِ کریم میں ہے: (1) ’’اور اُن کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے، (الذاریات: ۱۹)‘‘۔ (2): ’’اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے، پس جن کو فضیلت دی گئی ہے، وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے زیردستوں کو لوٹا دیں تاکہ وہ رزق میں برابر ہوجائیں، تو کیا یہ لوگ اللہ کی نعمت کا انکار کر رہے ہیں، (النحل: ۷۱)‘‘۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مالداروں کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے، تو اسے ان کے مالداروں سے لے کر ان کے ناداروں کی طرف لوٹا دیا جائے، (بخاری)‘‘۔
جب نظام حکومت میں تقسیم دولت کا عادلانہ نظام نہیں ہوگا، دولت کا غالب حصہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجائے گا تو معاشی ناہمواریاں اور محرومیاں پیدا ہوں گی، سانحات رونما ہوں گے اور خدانخواستہ حالات طبقاتی تصادم پر بھی منتج ہوسکتے ہیں۔ مغربی ممالک میں بھی ارتکاز دولت اور سرمایہ دارانہ نظام اپنے عروج پر ہے لیکن وہاں بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی ہرشہری کے لیے ممکن بنادی گئی ہے۔ تعلیم، معاش اور ترقی کے ہر میدان کو مسابقت کے لیے کھلا رکھا گیا ہے، میرٹ پر اقربا پروری، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کو ترجیح نہیں دی جاتی، یہ خرابیاں یقیناًوہاں بھی ہیں، لیکن ایک حد کے اندر ہیں۔
سماجی مسئلہ:
ان سانحات کا ایک سبب متضاد رویوں پر مبنی ہمارے سماجی حالات، گھریلو ناچاقیاں، شادی کے مسائل پر والدین اور اولاد میں موافقت کا نہ ہونا ہے۔ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر سے مطابقت پیدا کرنے سے کلی انکار اور ایثار وتحمل کا فقدان اس کا سبب ہے۔ ایک طرف ہمارے ہاں کافی حد تک آزادروی رائج ہوگئی ہے، بیش تر تعلیمی اداروں میں نظام تعلیم مخلوط ہے، رہی سہی کسر الیکٹرونک میڈیا نے پوری کردی ہے، بلکہ اس نے تو غضب ہی ڈھا دیا ہے اور اب ہماری دیہی آبادی کا غالب حصہ بھی اس کی زد میں ہے۔ یہ وہ فحاشی ہے جو جبراً مسلط کردی گئی ہے، ممکن ہے کچھ لوگ اپنے دل کو یوں تسلی دیتے ہوں کہ ہماری بچیاں نقاب اوڑھ کر جاتی ہیں، بلاشبہ اخلاقی تنزل کے اس دور میں یہ جہاد ہے اور بڑے اجر کی بات ہے، لیکن جہاں انہیں جانا ہے، وہاں تو ماحول بے حجاب بلکہ بے قابو ہے۔ جب ماحول میں ایمان وعرفان اور نورانیت کی بہاریں اپنی اوج کمال پر تھیں، اس عہدِ مبارک میں احتیاط کا عالم یہ تھا: ’’سیدہ ام سلمہ بیان کرتی ہیں: حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے کہ میں اور سیدہ میمونہ رسول اللہؐ کے پاس تھیں کہ نابینا صحابی عبد اللہ بن ام مکتوم حاضر خدمت ہوئے، حضور نے فرمایا: ’’تم دونوں پردہ کرو‘‘، میں نے عرض کی: یارسول اللہ! وہ تو نابینا ہیں، نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ پہچان سکتے ہیں، تو آپ ؐ نے فرمایا: کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، کیا تم دونوں ان کو دیکھ نہیں رہی ہو؟ (سنن ترمذی)‘‘۔
میری والدین سے درد مندانہ گزارش ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی واخلاقی تربیت پر بچپن سے توجہ دیں، انہیں حالات اور ماحول کے رحم وکرم پر نہ چھوڑیں۔ فقہ حنفی میں نکاح کے لیے لڑکے لڑکی کی رضا مندی ضروری ہے اور سرپرست (ولی) کے حقوق کا بھی تحفظ کیا گیا ہے، دونوں میں کافی حد تک توازن ہے۔ اگر رشتے کے سلسلے میں بیٹے یا بیٹی کا انتخاب درست ہے تو اسے قبول کیجیے، نامناسب ہے تو دلائل سے اپنی اولاد کو قائل کیجیے، اگر وہ تسلیم کرلیں تو آپ کی خوش نصیبی اور ان کی سعادت مندی ہے اور کسی صورت نہ مانیں تو ذہنی مطابقت کی صورت پیدا کیجیے۔ عالم شباب میں انسان جذبات کی رو میں بہہ جاتا ہے، اولاد کی غلطی کا امکان اسی فی صد تسلیم کرلیا جائے، تو والدین بھی تو خطا سے معصوم نہیں ہیں، بیس فی صد غلطی کا امکان ان کے فیصلے اور اجتہاد میں بھی ہوسکتا ہے۔ اس کی مثالیں آئے دن ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں، لہٰذا جہاں عقل جواب دے جائے، وہاں معاملہ اللہ کے سپرد کردینا چاہیے اور اس کی تقدیر پر راضی ہوکر مفاہمت ومطابقت کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ گزشتہ برسوں میں کتنے ایسے واقعات اخبارات کی زینت بنے، والدین، خاندان اور خود بچیوں کی رسوائی ہوئی، قتل وتشدد تک نوبت آپہنچی، لیکن ناکامی اور رسوائی کے سوا ہاتھ کچھ نہ آیا۔
خودکشی کے ہر واقعے کا انفرادی تجزیہ ضروری ہے:
یہ ضروری نہیں کہ خود کشی کے ہر واقعے کے پیچھے ایک ہی نوعیت کے عوامل کار فرما ہوں، حقائق تک رسائی کے لیے ہر واقعے کا جداجدا سائنٹیفک تجزیہ ضروری ہے، ہوسکتا ہے بعض واقعات کے پیچھے قتل عمد کا سنگین جرم کار فرما ہو اور خود کشی کی عام لہر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کمال عیاری سے اسے خودکشی کا رنگ دے دیا گیا ہو، ماضی میں ہتھوڑا قتل کے واقعات کا ذہانت سے تعاقب کیا گیا تو وہ دانستہ انتقامی قتل کے واقعات نکلے، مغربی ممالک میں تفتیش کی عام روش سے ہٹ کر ہر جرم کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے اور بعض اوقات وہ کامیابی پر منتج ہوتی ہے۔
مومن ہمیشہ رجائیت پسند رہے، یاس اور قنوطیت کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے، قرآن کریم میں ہے: ’’اے میرے بندو! جنہوں نے (کثرتِ گناہ سے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بیشک اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا، (الزمر: 53)‘‘ اور فرمایا: ’’بے شک اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ مایوس ہوتے ہیں، (یوسف: 87)‘‘۔ مشکلات میں گھرے انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے امید دلائی ہے: ’’بے شک تکلیف کے ساتھ راحت ہے، بے شک تکلیف کے ساتھ راحت ہے، (الم نشرح: 5-6)‘‘۔
خود کشی پست ہمتی، بزدلی، قنوطیت اور بے عملی کا دوسرا نام ہے، یہ فرد کی پژمردگی اور احساس شکست کی آئینہ دار ہے، یہ صحت مند معاشرے کی علامت نہیں ہے۔ انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ایمان، عزم وہمت، جذبۂ عمل اور بدی کی قوتوں سے مزاحمت ہے۔ شکست خوردہ ذہنیت کے حامل لوگ خودکشی کی راہ پر چل پڑتے ہیں، کیوں کہ ان میں زندگی کے حقائق اور مشکلات کاسامنا کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ زندہ دل، اولوالعزم اور قوت ایمانی کے حامل لوگ بلند ہمتی سے مصائب کا مقابلہ کرتے ہیں، گر کر پھر اٹھتے ہیں، دکھ سہتے ہیں، دکھ پالتے نہیں، اور آخر کار کامیابی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ جب دین کا تقاضا ہو توجان صرف ’’جاںآفریں‘‘ کے نام پر دینی چاہیے، مظلوم اور کمزور طبقات ایمانی قوت سے سرشار ہوکر اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، اگر اللہ کا دین اور نظامِ مصطفی ؐ اپنی اصل، کامل اور جامع شکل میں نافذ ہوجائے تو پھر سب کے لیے عافیت ہوگی، ہر ایک کے دکھ کا درماں اور درد کامداوا ہوگا، دنیا بھی سکون کا گہوارہ بنے گی اور عاقبت بھی سنور جائے گی۔