چیف جسٹس کی قسم

278

عدالت عظمیٰ کے بڑے منصف جناب ثاقب نثار میاں نواز شریف اور ان کے تمام حواریوں کی طرف سے کڑی تنقید کی زد میں ہیں چنانچہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’خدا کی قسم کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، ہماری نیت صاف ہے جس طرح چاہیں ہمارا امتحان لے لیں‘‘۔ کیا یہ ایک المیہ نہیں کہ عدالت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز چیف جسٹس کو قسمیں کھانی پڑ رہی ہیں۔ اگر وہ خدا کی قسم کھائے بغیر بھی اپنی بات کرتے تو قابل اعتبار ہوتی۔ لیکن شاید انہوں نے اتنی بڑی قسم ان لوگوں کو یقین دلانے کے لیے کھائی ہے جو جولائی 2017ء سے مسلسل چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مگر کیا ایسے لوگ قسم کا اعتبار کرلیں گے؟ہرگز بھی نہیں۔ چیف جسٹس محترم ثاقب نثار نے دعوت دی ہے کہ جس طرح چاہیں ہمارا امتحان لے لیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدل کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخص کو امتحان دینے کی ضرورت نہیں اور پھر یہ امتحان کون لے گا؟ کیا وہ لوگ جو اس نظام کو سکھا شاہی قرار دے رہے ہیں؟اور اگر چیف جسٹس صاحب کو اس امتحان میں فیل قرار دے دیا گیا تب کیا ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ سیاسی مقدمات کو ہاتھ لگانے کو بھی دل نہیں کرتا مگر مجبوری میں سننے پڑتے ہیں۔ خواہش ہے عوام کو روٹی اور صاف پانی مل جائے۔ اسی کے ساتھ دوائیں منہگی کرنے پر بھی چیف جسٹس نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک سیاسی جماعت تو اپنے قیام کے وقت ہی سے عوام کو روٹی، کپڑا، مکان کا جھانسہ دے کر اقتدار کی راہ ہموار کرتی رہی ہے لیکن مکان تو کیا روٹی اور صاف پانی بھی نہ ملا۔ میاں نواز شریف نے بھی وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے بعد عوام کو مکان دینے کا نعرہ لگایا ہے۔ تین بار وزیراعظم رہنے اور گزشتہ ساڑھے چار سال اقتدار میں گزارنے کے دوران میں تو مکان دینے کا خیال نہ آیا۔ کسی نے تبصرہ کیا ہے کہ ایسے نعرہ بازوں نے اپنے محل کھڑے کرلیے اور کئی نسلوں کے لیے روٹی کا بندوبست کرلیا۔ چیف جسٹس کی خواہش نیک ہے لیکن کیا وہ عوام کو روٹی اور صاف پانی دلاسکیں گے، خاص طور پر ان حالات میں جب حکمران دیوار بنے کھڑے ہیں۔