ایک بھائی قائد دوسرا صدر

478

عدالت عظمیٰ نے آئین کی شق 62-63 کے تحت نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف کو سرکاری مسلم لیگ (ن لیگ) کی صدارت کے لیے بھی نا اہل قرار دے دیا تو وہ پارٹی کے تا حیات قائد بن گئے اور اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو پارٹی کا عبوری صدر مقرر کردیا۔ گویا گھر کی بات گھر ہی میں رہی۔ گزشتہ منگل کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں میاں نواز شریف کے گھر پر پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ میں یہ فیصلے کیے گئے۔ صدارت راجا ظفر الحق نے کی۔ حیرت انگیز طور پر اس اجلاس میں سابق وزیر داخلہ اور پارٹی سے طویل وابستگی رکھنے واے چودھری نثار نے شرکت نہیں کی۔ اس کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں کہ ان کو مدعو ہی نہیں کیا گیا یا وہ خود نہیں آئے۔ چودھری نے کہاہے کہ وہ دو دن بعد پریس کانفرنس میں اس معاملے کی وضاحت کریں گے۔ ایک خیال یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے میاں نواز شریف پر کھل کر تنقید کی تھی اس لیے میاں صاحب نے ان کو بلایا ہی نہیں۔کسی بھی بڑے لیڈر کے لیے انتقامی جذبہ ہلاکت کا باعث ہوتا ہے لیکن میاں صاحب تو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد سے انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔ ان کی طرف سے عدالت پر انتقامی کارروائی کا الزام لگایاجاتا ہے جب کہ چودھری نثار انہیں بار بار سمجھانے کی کوشش کرچکے ہیں کہ ان کا یہ رویہ پارٹی کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ میاں نواز شریف اپنے اس عمل کو مزاحمتی سیاست قرار دے رہے ہیں لیکن اپنے ہی ملک کے معتبر ترین اداروں کے خلاف مزاحمت کا نتیجہ کسی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں ہوگا۔ میاں صاحب سمجھ رہے ہیں کہ ان کی مزاحمت کے نتیجے میں وہ عوام میں مقبول ہوتے جارہے ہیں۔ چنانچہ ان کو شکوہ ہے کہ چودھری نثار علی خان نے ان کی حمایت نہیں کی۔ چودھری نثار کی عدم شرکت سے واضح ہورہاہے کہ انہوں نے اپنا راستہ ن لیگ سے الگ کرلیا ہے حالانکہ وہ پارٹی کے انتہائی سینیر رکن تھے۔ پاکستان تحریک انصاف نے چودھری نثار کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے لیکن اس کا امکان کم ہے کہ چودھری نثار پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں۔ ان کا خمیر مسلم لیگ کی مٹی سے اٹھا ہے مگر خود ن لیگ ان کو باہر دھکیل رہی ہے۔ یہ بجائے خود ن لیگ کا بڑا نقصان ہوگا مگر میاں صاحب یہ نقصان اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ ایک سوال یہ اٹھایا جارہاہے کہ کیا نا اہل قرار دیا گیا کوئی شخص پارٹی کی صدارت کے لیے کسی کا نام تجویز کرسکتا ہے۔ اس پر مشاہد اﷲ خان کا کہناتھا کہ میاں نواز شریف پارٹی کے رکن ہیں اس لیے وہ کسی کا نام تجویز کرسکتے ہیں۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ عدالت عظمیٰ کوئی اور فیصلہ دے ڈالے تاہم کسی کو تا حیات قائد بنالینا کسی بھی سیاسی پارٹی کا اختیار ہے۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین پاکستان سے غداری کے اعلان کے باوجود اب تک ایک دھڑے کے قائد ہیں۔ جو ان پر الزامات دھر کر الگ ہوئے وہ بھی بڑے احترام سے غدار وطن کو بانی قائد قرار دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف تو محب وطن ہیں اور تکنیکی طور پر ’’ناک آؤٹ‘‘ ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف یہ کام پہلے بھی کرچکے ہیں۔ جب ایک آمر جنرل پرویز مشرف نے ان کو جیل سے نکال کر ملک سے باہر بھجوادیا تھا تو وہ سینیر سیاست دان جاوید ہاشمی کو ن لیگ کا صدر بناکر خود قائد بن گئے تھے۔ مگر اس وقت وہ عدالت عظمیٰ سے نا اہل قرار نہیں دیے گئے تھے۔ اب دیکھنا ہے کہ پارٹی کا سپریم لیڈر بننے کے عمل کو عدالت عظمیٰ کیسے دیکھتی ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ چودھری نثار کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ کیا وہ سیاست چھوڑ دیں گے یا کسی اور رخ سے آئیں گے۔ کیا ن لیگ کے کچھ اور لوگ بھی ان کا ساتھ دیں گے اور دھڑے بندی واضح ہوجائے گی۔ ویسے تو چودھری نثار کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پارٹی کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے مگر سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی سے سیاست میں قدم جمانے والی محترمہ مریم نواز کا کہناہے کہ چودھری نثار کی عدم شرکت پر جو کچھ کہا جارہاہے وہ قطعی غلط ہے۔ لیکن پھر صحیح کیا ہے؟کم از کم یہ تو صحیح ہے کہ چودھری نثار نے اہم ترین اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اگر ان کی ناراضی کی بات غلط ہے تو میاں نواز شریف نہ سہی، مریم نواز، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی یا مشاہد اﷲ خان ہی بتائیں کہ حقیقت کیا ہے ورنہ قیاس آرائیاں تو ہوں گی۔ خودچودھری نثار علی خان نے دو دن بعد پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا ہے تو اس سے واضح ہے کہ دال میں بہت کچھ کالا ہے۔ مذکورہ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کو حکمران لیگ کا صدر بنادیاگیا ہے۔ اس سے مریم نواز کو بھی فائدہ ہوگا کہ اب پنجاب کا میدان ان کے لیے جولان گاہ بن گیا ہے کہ شہباز شریف کی توجہ مرکز میں ہوگی۔ لیکن کہیں اس سے مریم نواز اور حمزہ شہباز میں کشیدگی نہ بڑھ جائے جس کی بڑی شد و مد سے تردید کی جاتی رہی ہے مگر امور مملکت میں ایسی کشیدگیاں نئی بات نہیں۔ شہباز شریف ابھی پارٹی کے عبوری صدر بنائے گئے ہیں۔ مستقل صدر کا فیصلہ 6 مارچ کو جنرل کونسل کے اجلاس میں ہوگا اور ظاہر ہے کہ موجودہ فیصلے ہی کی توثیق ہوجائے گی۔ مشاہد اﷲ خان نے یہ بھی واضح کردیا کہ عہدہ کسی کے پاس ہو فیصلے اور پالیسیاں نواز شریف ہی کی چلیں گی۔ اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت تو نہیں تھی۔ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ نا اہل شخص ہی کے ہاتھ میں رہے گی۔ اب اس پرن لیگ کے ارکان متفق ہیں تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔ مجلس عاملہ کے اس اجلاس میں بھی میاں نواز شریف ججوں پر تنقید کرنے اور انتقام کا شکوہ کرنے سے خود کو باز نہیں رکھ سکے۔ فرمایا میرا جرم سی پی او پر حلف لینے سے کم ہے، یہ فیصلے میں نہیں مانتا۔ فرمایا سکھا شاہی چلنے دوں گا نہ یہ نظام قبول کرنے کو تیار ہوں۔ میاں صاحب کے دوسرے دور حکومت میں مخالفین بھی ان پر ایسے ہی الزامات لگاتے تھے۔ بہر حال اب تو وہ تاحیات قائد بن گئے ہیں، قائدین جیسی گفتگو بھی کرلیا کریں۔