بوسنیا کے سفیر کا تاجروصنعتکار برادری کو سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے پر زور

506

بوسنیا پاکستانی تاجروصنعتکار برادری کے لیے آزاد ویزہ پالیسی وضع کرے، مفسر عطا ملک

بوسنیا و ہرزیگووینا کے سفیر ثاقب فورک نے کراچی کی تاجروصنعتکار برادری کو بوسنیا و ہرزیگووینا میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سرمایہ کاری کرکے فارن انویسٹمنٹ پروموشن ایجنسی ( فیپا) کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولتوں اور ٹیکس فری ریجم کے علاوہ سستے فیول اور سستی بجلی جیسے فوائد سے بوسنیا میں لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ فیپا بوسنیا میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے سپورٹ اور بہترین سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے موقع پر کے سی سی آئی کے صدر مفسر عطا ملک،سینئر نائب صدر عبدالباسط عبدالرزاق اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔
بوسنیا کے سفیر نے کہاکہ فیپا سرمایہ کاروں کے ساتھ براہ راست کام کرنے کے لیے حکومتی اداروں کے ساتھ امور نمٹانے میں عملی طور پر تعاون پیش کرتا ہے اور پبلک و پرائیویٹ سیکٹر میں رابطوں کو استوار کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔فیپا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ سرمایہ کار معیشت کے مختلف شعبوں میں دستیاب مواقعوں سے بخوبی واقف ہوں۔ مزید برآں فیپا بوسنیا و ہرزیگووینا کے سفارتخانوں اور سفیروں کے ساتھ بھی مل کرکام کرتا ہے جو ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ہمیں پاکستان سے تجارت اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی تاجروصنعتکار برادری کو بوسنیا و ہرزیگووینا کاضرور دورہ کرنا چاہیے اور سیاحت دوست مسلم ملک میں تجارت کا جائزہ لینا چاہیے جو یورپی یونین کے بہت نزدیک ہے۔انہوں نے تاجروصنعتکار برادری کو تقویت دیتے ہوئے کہاکہ بوسنیا و ہرزیگووینا کی 70فیصد سرحد یورپی یونین سے ملتی ہے لہٰذا پاکستانی سرمایہ کاری اسے لاجسٹک بیس کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں جسے یورپی یونین تک رسائی کے لئے بطور روڈ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بوسنیا اور پاکستان کے مابین کئی سالوں سے اچھے تعلقات قائم ہیں اور یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان نے بوسنیا کی مکمل حمایت کرتے ہوئے خاص طور پر کٹھن اوقات میں بھرپور تعاون جاری رکھا ۔پاکستان اور بوسنیا دو برادر ملک ہیں جو ایک دوسرے کے لیے خاص جذبات رکھتے ہیں۔ہمیں نہ صرف زیادہ سے زیادہ تجارتی وفود کے تبادلے کی ضرورت ہے بلکہ طلبا، ثقافت، کھیلوں اور دیگر شعبوں میں وفود کے تبادلوں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ دونوں بردار ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر بنایا جاسکے ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ بوسنیا سرپلس ہائیڈرو بجلی اور کوئلے سے بجلی کی پیداوار کررہاہے جسے برآمد کیاجاتا ہے۔بوسنیا کی مہارت اور معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ہائیڈرو پاور پلانٹس کے قیام میں یقینی طور پر پاکستان کی مدد کرسکتے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں بوسنیا کے سفیر نے کہاکہ امریکا، برطانیہ یا شیجنگ ویزہ رکھنے والا کوئی بھی پاکستانی یا تاجر بغیر کسی ویزے کے باآسانی بوسنیا و ہرزیگووینا کا دورہ کرسکتا ہے جبکہ کاوباری اور سیاحتی ویزہ صرف ایسے درخواست گزاروں کو دیئے جاتے ہیں جنہیں بوسنیا میں کسی نے مدعو کیا ہو اور بوسنیا میں سرمایہ کاری کی صورت میں ملٹی پل ویزہ جاری کیا جاتا ہے۔بوسنیا کے سفیر نے کراچی چیمبر کو 25سے26 اپریل 2018 تک ہونے والے ’’ سراجیوو بزنس فورم‘‘ میں شرکت کی دعوت بھی دی جو نہ صرف سرمایہ کاری کے مواقعوں کا جائزہ لینے کے سلسلے میں ایک موئث پلیٹ فارم ہے بلکہ اس فورم میں شرکت سے یقیناًبوسنیا کی تاجربرادری سے تجارتی تعلقات بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔
قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر مفسر عطا ملک نے اپنے خطاب میں بوسنیا حکومت کی جانب سے پاکستانی تاجروصنعتکار برادری کے لیے خصوصی طور پر آزاد ویزہ پالیسی متعارف کرانے پرزور دیا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ معمولی تجارتی حجم کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کا اقتصادی مرکزہے جو منافع بخش سرمایہ کاری کے مواقعوں کے علاوہ بوسنیا کے سرمایہ کاروں کومشترکہ شراکت داری اور سرمایہ کاری کے شاندار مواقع فراہم کرتا ہے۔امن وامان کی بہتر صورتحال کے باعث دنیا بھر سے سرمایہ کار دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کراچی قومی خزانے میں 65فیصد سے زائد ریونیو جمع کراتاہے جو بوسنیا کے سرمایہ کاروں کے لیے ایک پرکشش مقام ہے اور وہ اس شہر میں کاروبار کرکے اور مشترکہ شراکت داری کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع کما سکتے ہیں۔
انہوں نے دوطرفہ تجارت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اور بوسنیا کے درمیان دوطرفہ تجارت زیادہ وسیع نہیں اور موجودہ تجارتی حجم بہت محدود ہے۔ مالی سال 2017 کے دوران پاکستان نے 0.36 ملی ڈالر مالیت کی اشیاء برآمد کیں جبکہ درآمدات2.6ملین ڈالر رہیں۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارتی تعلقات کوفروغ دینے پر زور دیتے ہوئے دہرایا کہ موجودہ تجارتی حجم بہت کم سطح پر ہے۔اس ضمن میں تجارتی وفود کے تیزی سے تبادلے اور عوام کے عوام سے رابطوں کی اشد ضرورت ہے جبکہ کے سی سی آئی اور بوسنیا کے چیمبر کے درمیان بھی مضبوط رابطے ہونا انتہائی ضروری ہے جس سے دوطرفہ تجارت کو فروغ ملے گا جو دونوں برادر ملکوں کے حق میں ہے۔
کے سی سی آئی کے صدر نے کراچی چیمبر کی ’’مائی کراچی‘‘ نمائش کے بارے میں بوسنیا کی تاجروصنعتکار برادری کو آگاہی فراہم کرنے کے حوالے سے بوسنیا کے سفیر سے کے سی سی آئی کے ساتھ تعاون طلب کرتے ہوئے کہاکہ بوسنیا کی کمپنیوں کو کراچی ایکسپو سینٹر میں 20سے22اپریل 2018تک ہونے والی 15ویں ’’ مائی کراچی ‘‘ نمائش میں شرکت کرنی چاہیے۔ یہ تین روزہ نمائش 2004سے مسلسل کامیابی کے ساتھ منعقد کی جارہی ہے جس میں ہر سال 10لاکھ کے قریب افراد شرکت کرتے ہیں۔’’ مائی کراچی‘‘ نمائش بوسنیا کے تاجروصنعتکاروں کو اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے شاندار مواقع فراہم کرے گی جبکہ بزنس تو بزنس میٹنگز کے ذریعے کراچی کی تاجر برادری کے ساتھ مضبوط تعلقات بھی استوار ہوں گے۔