سوراخ والی ٹوکری اور ترقی

267

گزشتہ دنوں خبر پڑھی تھی کہ پاکستان کی ترقی کی رفتار امریکا، برطانیہ اور جرمنی سے بھی زیادہ تیز ہے، بڑی تعریفیں کی گئیں اور یہ کہا گیا کہ اب پاکستان پیروں پر کھڑا ہورہا ہے۔ لیکن یہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نامعلوم کہاں سے ٹپک پڑا، پاکستان کے بیرونی قرضوں کے بارے میں رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بیرونی قرضے 89 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ صرف گزشتہ برس بیرونی قرضوں میں 13 ارب 13 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا، جب کہ طویل المدتی قرضوں کا حجم 59 ارب 45 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ بینک نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کا حجم بھی بڑھ گیا ہے۔ اب یہ قرضے 5 ارب 91 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی حکومتی اداروں کے ذمے بھی 59 ارب 45 کروڑ ڈالر کا قرضہ ہے۔ یہ اعداد و شمار گزشتہ تین چار برس کی ترقی کا راز کھولنے کے لیے کافی ہیں، یہاں تو قرض کی پیتے تھے مے والا معاملہ ہے۔ یہ فاقہ مستی ضرور ایک دن رنگ لائے گی۔ لیکن اس وقت یہ قرض لینے والے مے پی کر اوندھے پڑے ہوں گے اور قوم قرضے اُتار رہی ہوگی اور جو نئے لوگ آئیں گے وہ کہیں گے کہ ہم قوم کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔
اس حوالے سے کچھ ثبوت بار بار سامنے آرہے ہیں کسی نے کہا کہ قوم کو روٹی، کپڑا، مکان تو نہ ملا زرداری صاحب کی جائداد بن گئی، ایک تبصرہ سینیٹر مشاہد اللہ کا بھی ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے وزیر بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آصف زرداری کسی کو کرپٹ کہیں تو سمجھ لیں کہ وہ شخص فرشتہ ہوگا۔ اب اس کی وجہ کیا ہے یہ بات تو مشاہد اللہ نہیں بتا سکے۔ شاید بتا بھی نہ سکیں۔ لیکن ہمارے ایک دوست کا تبصرہ ہے کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ کوئی آصف زرداری صاحب سے بھی ہاتھ کر گیا ہو۔ کرپشن تو یہ بھی بہر حال ہے۔ آپ اسے فرشتہ کہیں یا مور۔ لیکن اسٹیٹ بینک کی رپورٹ جو بتا رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک کے عوام صرف قرضے ادا کررہے ہوں گے۔ جیسے کسی گھر میں کوئی شادی یا بیماری آجائے تو عام متوسط طبقے کا فرد یا اچھا خاصا کھاتا پیتا فرد بھی اُدھار لے کر اس معاملے سے نمٹتا ہے، پھر کئی ماہ یا کئی سال اُدھار چکاتا رہتا ہے۔ لیکن اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اُدھار لے کر اپنے گھر کے معاملات چلائے ہیں، آگے احتیاط کروں گا اور اگر میں نہ رہا تو میرے بچے اُدھار چکائیں گے۔ لیکن یہاں تو حکمرانوں کا الگ کھیل ہے، ادھار لے کر ترقی کے دعوے کررہے ہیں اور یہ اُدھار بھی ان ہی عوام کو ادا کرنا ہے جو پس رہے ہیں۔ بینک دولت پاکستان یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رپورٹ دی ہے کہ بیرونی قرضے 89 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں، اسٹیٹ بینک کا کام صرف یہ اطلاع دینا ہوتا ہے کہ حکومت دیکھ لے کہ اسے اب کیا کرنا ہے۔ بیرونی قرضوں میں اضافہ عوام کے روزگار میں کمی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، گیس کے نرخوں میں اضافہ، دودھ، شکر، آٹا مہنگا، بجلی کے ریٹ تو ملک بھر میں بے قابو اور کراچی میں لوٹ مار کی حد تک زیادہ ہیں، اور سندھ، پنجاب سمیت پورے ملک میں ترقی کے دعوے اور اب عدالت پر الزام کہ نواز شریف کو نااہل نہ کیا گیا ہوتا تو ہر شخص روزگار پر ہوتا، ہر ایک کے پاس اپنا مکان ہوتا، ملک ٹیکس فری ہوجاتا، ہر طرف روپے کی ریل پیل ہوتی، بس ساری خرابی چند ماہ میں ہوئی ہے۔ بلکہ جو کچھ بھی نہیں ہوا وہ سب ان ہی دنوں میں ہوجاتا۔ لیکن کوئی وزیر با تدبیر یہ بتانے سے قاصر ہے کہ پھر بیرونی قرضے کیوں بڑھ رہے ہیں، اور گزشتہ مالی سال ہی میں 13 ارب 13 کروڑ ڈالر کا کیوں اضافہ ہوا۔ اس وقت تک تو عدالتی فیصلہ نہیں آیا تھا۔ قوم کو آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کے قرضوں کے بارے میں الگ بتایا جارہا ہے اور سی پیک کے قرضے۔ کس کھاتے میں جائیں گے، ان کے ساتھ ترقی ضرور آئے گی، لیکن قرضے بھی آئیں گے اور یہ ہماری نسلوں کو ادا کرنے ہوں گے۔ ابھی اسٹیٹ بینک اور حکومت کے دعوؤں کا موازنہ کررہے تھے کہ واٹس اپ کی دنیا میں گھومنے والی ایک تصویر سامنے آگئی۔ جی تو چاہتا ہے کہ وہ تصویر بھی اس کالم کے ساتھ ہی شائع کردیں لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ تصویر پرانی ہے ایک آدمی نلکے کے نیچے پلاسٹک کی بالٹی رکھے بیٹھا ہے اور نلکا پوری قوت سے پانی پھینک رہا ہے لیکن بالٹی ہے کہ بھر ہی نہیں رہی۔ کیوں کہ یہ بالٹی پانی والی نہیں بلکہ میلے کپڑے یا ردّی وغیرہ کی بالٹی ہے جس میں سوراخ ہی سوراخ ہیں۔ تو پھر اس میں پانی بھرے گا کیسے۔ اس تصویر کو پیپلز پارٹی کے مخالفین استعمال کرسکتے ہیں۔ تصویر کے نیچے صرف اتنا لکھنا ہوگا۔ لاڑکانہ کو پیرس بنانے کی 48 سالہ کوششیں۔ یہی بات مسلم لیگ کے مخالفین اس طرح لکھ سکتے ہیں کہ پنجاب کی ترقی پر شہباز شریف کی کوششیں۔ وسائل تو اسی طرح لٹائے گئے ہیں لیکن سوراخ والی ٹوکری میں کیا جمع ہوگا۔ پورے ملک پر یہ ایک تصویر صادق آرہی ہے۔ عالمی اداروں سے قرض پر قرض لیا جارہا ہے اور ٹوکری میں سوراخ ہے۔ لیکن واٹس اپ کے اس آدمی کی طرح بے وقوفی نہیں کی جارہی۔ ہمارے حکمران یہ قرض لے کر جس سوراخ والی ٹوکری میں ڈال رہے ہیں اس کے نیچے ان کے بھانجے، بھتیجوں اور رشتے داروں کی مضبوط ٹوکریاں بلکہ ٹنکیاں ہیں جو کبھی بھرتی ہی نہیں تو سوچ لیں ترقی کیا خاک ہوگی۔