کاشانہِ ما رفت بتاراج غماں، خیز

456

صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا کا سفارت خانہ 14مئی کو اسرائیل کے قیام کی سترویں سالگرہ پر یروشلم منتقل کردیا جائے گا۔ اس سے پہلے گزشتہ دسمبر کو جب ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ امریکی سفارت خانہ ایک سال کے اندر اندر یروشلم منتقل کر دیا جائے گا۔ اس نئے اعلان سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امریکی فیصلہ کے خلاف فلسطینیوں، عالم اسلام اور دوسرے ملکوں کی مخالفت کووہ یکسر ٹھکرا کر عجلت میں اپنے فیصلہ پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرار داد اور مسلم ممالک میں چند مظاہروں اور فلسطینیوں کے احتجاج کے علاوہ پورا عالم اسلام خواب گراں میں مبتلا ہے۔ 49سال قبل جب ایک آسٹریلوی یہودی نے مسجد اقصیٰ میں آگ لگائی تھی تو پوری اسلامی دنیا میں احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی تھی اور مسلم ممالک کے سربراہ مراکش کے دارالحکومت رباط میں مسجد اقصیٰ کے تحفظ کی تدابیر سوچنے کے لیے مل بیٹھے تھے جس کے نتیجے میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم قائم ہوئی تھی۔ یروشلم کے بارے میں ٹرمپ کے اعلان کے بعد دور دور تک کوئی ایسی آواز سنائی نہیں دی کہ پتا چلے کہ او آئی سی کا بھی کوئی وجود باقی ہے۔
پاکستان جو فلسطینیوں کے حقوق کے لیے پیش پیش رہا ہے وہ سیاست دانون اور عدلیہ کے درمیاں معرکہ آرائی میں الجھا ہوا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے لیے جوڑ توڑ میں غرق ہے اور عمران خان کی تیسری شادی کے قصوں کی بھول بھلیوں میں ایسا گم ہے کہ اسے خبر نہیں کہ پاکستان سے باہر کی دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ اسے اس کا بھی علم نہیں کہ ہندوستان اس کے محاصرے کے لیے کیا گٹھ جوڑ کر رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ، شام کی تباہ کن جنگ میں جھلس رہا ہے یہ جانتے ہوئے کہ اس جنگ میں فتح کسی کی نہیں ہوگی صرف عام شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور پورا ملک کھنڈر بن کر رہ جائے گا۔ یمن، سعودی اتحاد کی بمباری سے کھنڈر کا ڈھیر بن چکا ہے اور ننھے بچے اسپتالوں میں دم توڑ رہے ہیں، یمن کی بندرگاہوں کی ناکہ بندی سے لاکھوں افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ ایک کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے کی جان کے ایسے دشمن ہوگئے ہیں کہ ایک دوسرے کو فنا کرنے کے درپے ہیں۔
ادھر مصر میں فوجی آمر جنرل عبد الفتاح السیسی، اسرائیل کے ساتھ دوستی کی ایسی پینگیں بڑھا رہے ہیں کہ جیسے کسی غیبی طاقت نے ان کی تقدیر میں ایک دوسرے پر جان چھڑکنی لکھ دی ہے۔ شاید اسی غیبی طاقت کے حکم پر اخوان المسلمین کے منتخب صدر مملکت محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹا گیا
تھا۔ اب مارچ میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں اپنے تمام حریفوں کو یکے بعد دیگرے میدان سے صاف کر نے کے بعد جنرل السیسی نے اسرائیل سے 15ارب ڈالر مالیت کی قدرتی گیس خریدنے کا سودا کیا ہے۔ اس سودے پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایسی بغلیں بجائی ہیں کہ جیسے انہوں نے مصر کو فتح کرلیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل، جنرل السیسی نے Zohr کے قدرتی گیس کے چشمہ کا افتتاح کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ مصر اپنی قدرتی گیس کی ضروریات پوری کرنے میں خود کفیل ہوگیا ہے۔ اس اعلان کے بعد اچانک اسرائیل سے قدرتی گیس کی خریداری کے سودے کا راز کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ ممکن ہے غیبی طاقت کا اشاہ ہو۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسرائیل ایک عرصے سے Leviathan میں اپنے قدرتی گیس کے چشمے میں توسیع کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے کوشاں تھا جس میں اسے اب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ قدرتی گیس کا یہ چشمہ 2010 میں دریافت ہوا تھا۔ پچھلے دنوں اردن سے دس ارب ڈالر کی مالیت کی گیس کی فروخت کا سودا طے پایا تھا لیکن اس کے خلاف اردن میں عوامی احتجاج بھڑک اٹھا تھا۔
مصر میں جنرل السیسی کی استبدادی حکومت کے پیش نظر اسرائیل سے گیس کی خریداری کے سودے کے خلاف کسی احتجاج کا امکان نہیں ہے۔ عوام جب یہ دیکھ چکے ہیں کہ کس سفاکی سے صدارتی امیدواروں کا صفایا کیا گیا ہے، ان کی کیا مجال کہ وہ جنرل السیسی کے فیصلوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ مصر کے عوام شمالی سینا میں عرب بدوں کے خلاف مصری فوج اور اسرائیلی فوج کی مشترکہ کارروائی بے بسی سے دیکھ رہے ہیں۔ گو یہ کارروائی، داعش کے خلاف کارروائی قرار دی جارہی ہے لیکن دراصل یہ کارروائی عرب بدوں کے خلاف ہے جن کو اس علاقے سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جواز گزشتہ جنوری میں مصر کے ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے حادثے کو بنایا گیا ہے۔ اس ہیلی کاپٹر میں وزیر دفاع صدقی صوبی اور وزیر داخلہ مجدی عبد الغفار سوار تھے۔ عرب بدوں پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے یہ ہیلی کاپٹر گرانے کی کوشش کی تھی۔ مصری فوج اور اسرائیلی دونوں ان بددوں کو اس علاقہ سے نکالنا چاہتے ہیں جہاں یہ کئی صدی سے آباد ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے شمالی سینا میں 2014 سے ہنگامی حالت نافذ ہے۔
اس صورت حال میں ایسا لگتا ہے کہ مصریوں کو اپنے فلسطینی بھائیوں کی کوئی فکر نہیں جو پچھلے پچاس سال سے اسرائیل کے تسلط میں زندگی گزار رہے ہیں ان کی نظروں کے سامنے اسرائیلی ارض فلسطین کے ایک بڑے علاقے میں یہودی بستیاں تعمیر کر کے اپنے قبضہ میں توسیع کر رہے ہیں لیکن مصری عوام جنرل السیسی کی استبدادی فوجی آمریت کے سامنے بے بس ہیں۔ حال میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں تین ہزار یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے منصوبہ کا اعلان کیا ہے۔ خطرہ ہے کہ ان بستیوں کی تعمیر کے بعد فلسطینیوں کے پاس اس قدر کم علاقہ رہ جائے گا کہ اس میں ان کی الگ مملکت کا قیام ممکن نہیں رہے گا۔
فلسطین کے عوام پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ان پر عرب دنیا اور مسلم امہ کی خاموشی کو مجرمانہ قرار دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی حقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکام اور افواج بڑے پیمانے پر فلسطینی قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ برابر جاری ہے۔ اس وقت اسرائیل کی جیلوں میں 6600 فلسطینی قید ہیں جن سے نہایت ظالمانہ رویہ برتا جاتا ہے۔ بیش تر قیدیوں کو قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ ان قیدیوں میں 57خواتین ہیں اور ان کے ساتھ 300 بچے قید ہیں۔ فلسطینی قیدیوں میں 1800 خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ 26قیدی سرطان کے مریض ہیں اور موت کا انتظار کر رہے ہیں۔
یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایک سو سے زیادہ قیدیوں کو یہ کہہ کر ہلاک کردیا گیا ہے کہ یہ فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ سب جانتے ہیں کہ اسرائیلی جیلوں میں اس قدر سخت سیکورٹی ہوتی ہے کہ کوئی قیدی فرار ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
پچھلے دنوں اسرائیلی میڈیا میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان سے پہلے صدر ٹرمپ نے مصر کے جنرل السیسی اور سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان سے صلاح مشورہ کیا تھا اور اپنے فیصلہ کے بارے میں ان کو مطلع کیا تھا، کسی نے اس فیصلہ کی مخالفت نہیں کی تھی۔ پچھلے دنوں امریکا کے مشورے کے تحت سعودی عرب نے اسرائیل کے مسافر طیاروں کو سعودی عرب کی فضا سے پرواز کی اجازت دی ہے۔ امریکی حکام اس فیصلہ کو سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان برف پگھلنے کا عمل قرار دے رہے ہیں۔ ادھر، یورپ میں اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم کے پیش نظر اسرائیل میں تیار شدہ اشیاء، مصری اشیاء کے نام سے مصر کے راستے برآمد کی جارہی ہیں۔ خود یورپ میں فلسطینیوں پر ظلم وستم کے خلاف بطور احتجاج اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے والی یورپی تنظیمیں اسے مجرمانہ طریق کار قرار دے رہی ہیں لیکن اسرائیلی رہنما بائیکاٹ کو ناکام بنانے کے اس عیارانہ طریق کار پر بے حدخوش ہیں۔
الغرض اسرائیل جس طرح ارض فلسطین اور فلسطینی عوام کو اپنے استبدادی پنجہ میں جکڑ رہا ہے اس پر عالم اسلام کی، خاموشی، بے عملی، بے حسی اور بے کسی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان، خواب گراں میں مبتلا ہیں۔ آج انہیں بیدار کرنے کے لیے علامہ اقبال کی اس للکار کی تجدید کی ضرورت ہے۔
اے غنچہ خوابیدہ چو نرگس نگراں خیز
اے سوئے ہوئے نوخیز پھول نرگس کی طرح آنکھیں کھول کر جاگ۔
کاشانہ ما رفت بتاراج غماں خیز
ہمارا گھر غموں، (بے عملی) نے تباہ کر دیا ہے۔
از نالہ مرغ چمن، از بانگ اذاں خیز
چمن کے پرندے کے نالہ سے یا اذان کی آواز سے جاگ
از گرمی ہنگامہ آتش نفساں خیز
آگ جیسی گرم سانسوں کے ہنگامہ سے جاگ۔
از خوابِ گراں، خواب گراں، خوابِ گراں خیز