پارک کے پلاٹ پر مندر کی تعمیر 

1334

کراچی کے علاقۂ امراء (پوش) ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں ملک کا سب سے بڑا مندر بنایا جارہا ہے۔ ہندو اکثریتی ملک بھارت میں مسجدوں پر پابندی کے برعکس پاکستان میں مندروں کی تعمیر اور ان کی دیکھ بھال پر کوئی پابندی نہیں ہے، جہاں ہندوؤں کی قابل لحاظ آبادی ہے، وہاں ان کے مندر بھی ہیں، خاص طور پر اندرون سندھ تھرپارکر، گھوٹکی وغیرہ میں۔ اقلیتوں کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہے۔ لیکن ڈی ایچ اے میں جس مندر کی بنیاد رکھی جارہی ہے وہ ایک پارک کے لیے مختص پلاٹ ہے جس پر کوئی اور عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایک ایکڑ کا پلاٹ ہے۔ اس پر مندر یا کوئی اور عبادت گاہ بنانا غیر قانونی ہے اور حکومت کو خود اس پر پابندی لگانی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ اس علاقے میں ہندوؤں کی آبادی نہیں ہے، بمشکل دو، چار مکان ہی ہوں گے جبکہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ وہاں مندر کی تعمیر سے جھگڑے کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت سندھ آئندہ انتخابات کے مد نظر اپنے ہندو ووٹروں کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ حیرت ہے کہ ڈیفنس آفیسرز ہاؤسنگ سوسائٹی کراچی کے سیکرٹری نے پارک کا پلاٹ پاکستان ہندو کونسل کو مندر کے لیے کیسے الاٹ کردیا اور ایک خط کے ذریعے اس کی اطلاع رکن قومی اسمبلی اور چیف پیٹرن ڈاکٹر رمیش کمار کو کیسے دے دی اور دعویٰ کیا کہ سوسائٹی کی مجاز اتھارٹی یہ کرسکتی ہے۔ جسارت کے رپورٹر کے مطابق سوسائٹی کے سیکریٹری نے رمیش کمار کو یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ پلاٹ کی الاٹ منٹ کی کارروائی جلد مکمل کر ڈالیں۔ مزید حیرت یہ ہے کہ ڈی ایچ اے کے فیز 8 میں مسجد کوئی نہیں ہے جب کہ علاقے میں تمام مسلمان بستے ہیں۔ مذکورہ پلاٹ فیملی پارک کے لیے مختص تھا تو سیکرٹری صاحب نے جو ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہیں، کس اختیار کے تحت وہاں مندر بنانے کی اجازت دیدی، نام تو ان کا محمد شعیب انور ہے۔ انہیں یہ مشورہ بھی دے دینا چاہیے تھا کہ اس کا نام رام مندر رکھ دیا جائے جو بھارتی انتہا پسند بابری مسجد شہید کرکے بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہاں نہ سہی، یہاں بنوا دیں۔ بھارت کے انتہا پسند تو اذان پر پابندی لگوانے کی مہم چلارہے ہیں کہ ان کی نیند خراب ہوتی ہے۔ تو جب ڈیفنس کی مسلم آبادی میں صبح صبح گھنٹیاں بجیں گی تب کیا ہوگا۔ ڈیفنس سوسائٹی کے سیکرٹری نے جانے کس کو خوش کیا ہے۔ مندر بننے کی اطلاع پر دور دور سے آکر ہندوؤں نے پلاٹ پر جشن اور بھجن گانے کا اہتمام کیا اور ڈھول بجائے۔ علاقے کی مسلم آبادی میں غم و غصّہ پھیل گیا۔ کیا سیکرٹری صاحب علاقے میں ہندو مسلم فساد کروانا چاہتے ہیں۔ کچھ عجیب نہیں کہ اس معاملے میں مسلمان اور پاکستان دشمن وہ بین الاقوامی ادارے بھی کود پڑیں جن کا الزام ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ نہیں۔ حکومت سندھ ہندوؤں کو مندر کے لیے کوئی اور جگہ دیدے جہاں ان کی آبادی بھی ہو۔ یاد رہے کہ کسی اور مقصد کے لیے مختص اراضی پر مسجد تعمیر کرنا بھی جائز نہیں۔ مسلمانوں کے دور میں قبضہ کی گئی زمینوں پر تعمیر کی گئی مساجد ڈھا دی جاتی تھیں۔