سینیٹ انتخابات کے نتائج: ایم کیو ایم کی ایوانوں سے واپسی کا اشارہ؟

216

کراچی (تجزیہ: محمد انور) سینیٹ کے ہفتے کو ہونے والے انتخابی عمل کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے سابق سربراہ نواز شریف کی نااہلی کے باوجود ان کی پارٹی ایوان بالا کی صف اول کی پارٹی کے روپ میں سامنے آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ ن لیگ پر اپنے رہنما نواز شریف کی نااہلی اور قومی اسمبلی ہی نہیں وزارت عظمی سے بھی باہر نکلنے سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اس کا استحکام ہوا ہے۔ دوسری طرف ایک زرداری سب پر بھاری کی کوشش سندھ اور بلوچستان میں تو کامیاب ہوئی تاہم ملک کے سب سے بڑے صوبے میں انہیں وہ پذیرائی نہیں مل سکی جس کی امیدیں لگائی گئی تھیں۔ پیپلز پارٹی کو سندھ سے سینیٹ کی 12 سیٹوں میں سے 10 ملیں۔ ایک سیٹ پاک سر زمین پارٹی کے تعاون سے مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر شاہ کو مل گئی۔ سینیٹ کے انتخابات کے نتائج سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے لیے شرمندگی کا باعث بن چکے ہیں۔ اب یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی منتخب ایوانوں سے بھی واپسی شروع ہوچکی ہے۔ اسی طرح جیسے سندھ کے شہری علاقوں سے ہوئی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ایم کیو ایم کو توقع تھی کہ ان کی صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 51 سے کم ہوکر 37 ہونے کے باوجود وہ سینیٹ کی 4 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلیں گے لیکن توقع کے برعکس صرف فروغ نسیم ہی اپنی سیٹ پر کامیاب ہوسکے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کامیابی کے لیے بھی 6 مرتبہ ووٹوں کی گنتی کرائی گئی۔ ایم کیو ایم پاکستان کی یہ سیٹ بھی متنازع ہوجاتی اگر 2 روز قبل سینیٹ کے انتخابات کے لیے کنوینر شپ کے معاملے کو پس پشت ڈال کر ان انتخابات کے لیے اتفاق نہ کرلیا گیا ہوتا۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو فروغ نسیم کی ایک سیٹ بھی نہیں ملتی۔ کیونکہ فروغ نسیم عامر خان گروپ کے نامزد کردہ امیدوار جبکہ شکست سے دوچار ہونے والے کامران ٹیسوری ایم کیو ایم پاکستان کے متنازع ہوجانے والے سربراہ فاروق ستار کے نامزد کردہ تھے۔ لیکن یہ فاروق ستار اور ان کے مخالف گروپ کی دانشمندی تھی کہ انہوں نے سینیٹ کے انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں پر اتفاق کیا جس کے نتیجے میں ایک سیٹ تو ان کے حصے میں آ ہی گئی۔ ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے سینیٹ انتخابات کے نتائج کے بعد سندھ میں ان انتخابات میں بدترین ہارس ٹریڈنگ کا الزام عاید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یہ کہنا ہے کہ ہمارے 6 ووٹ بک گئے جبکہ 2 خواتین اراکین سندھ اسمبلی نے اعلانیہ ایم کیو ایم کے امیدواروں کے بجائے پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ دیے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی اس بات کو کہ ہارس ٹریدنگ کی گئی یا 6 ووٹ بک گئے ہیں کو درست تسلیم کرلیا جائے تو بھی بحیثیت پارٹی سربراہ یہ ان ہی کی ناکامی ہے۔ لیکن ان انتخابات میں اصل شکست کی وجہ تو پارٹی میں 6 فروری سے پیدا ہونے والے اختلاف تھے جو تاحال موجود نظر آرہے ہیں۔ سینیٹ انتخابات کے نتائج اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ اگر ایم کیو ایم نے اپنی صفوں کو درست نہیں کیا اور پارٹی کے اندر موجود خامیوں کو دور نہیں کیا گیا تو عام انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کو “تاریخی ناکامی” کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہر انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کی تاریخی کامیابیوں کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ یقیناً ایسا ہوا تو سندھ کی سیاست میں 30 سال بعد تبدیلی آجائے گی اور ایم کیو ایم کے مخالفین اسی طرح سکھ کا سانس لیں گے جس طرح کراچی میں امن ہونے کے بعد کراچی کے لوگ سکون کے دن گزار رہے ہیں۔