معصوم اہل وزیر اعظم کی باتیں اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی بازگشت

346

محمد انور

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی اپنے پیش رو میاں نواز شریف کی طرح معصوم ہی نہیں بلکہ مسکین بھی لگتے ہیں۔ میاں صاحب کی معصومیت یہ ہے کہ انہیں یہ تک نہیں پتا چلا کہ انہیں کیوں نکالا گیا، تب ہی وہ ہر ایک سے چیخ چیخ یہ پوچھ رہے ہیں کہ: ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘۔ نکالنے والوں نے انہیں نکالنے کے بعد جب پارٹی کی صدارت بھی چھین لی تو میاں صاحب سے برداشت نہیں ہوا اور معصومیت سے بولنے لگے کہ: ’’اب میرا نام بھی چھین لو‘‘۔ بے چارے میاں صاحب معصومیت کے بعد اب تو مسکین بھی لگنے لگے ہیں۔ جب وزارت اور صدارت چھن جائے تو سیاست دان مسکین ہی ہوجاتا ہے۔
موجودہ اور اب تک ’’اہل‘‘ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو دیکھیے کہ انہوں نے بھی واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ: ’’اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، ایک دوسرے کی ڈومین کا خیال رکھنا چاہیے ورنہ نظام نہیں چل سکتا‘‘۔ شاہد خاقان عباسی کی یہ بات ’’معصومانہ‘‘ ہی تو ہے۔ ملک کے سرکاری اداروں ہی کیا ’’سیاسی ایوانوں‘‘ خصوصاً جمہوری ادوار میں 70سال سے ایک دوسرے کا احترام ہی کیا ہے ’’ایک دوسرے کا خیال رکھ کر‘‘ ہی تو معاملات چلائے جاتے رہے ہیں۔ یقین نہ آئے تو 2008 تا 2013 اور پھر 2013 تا اکتوبر 2017 کا جمہوری ادوارکا جائزہ لے لیا جائے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں نے ایک دوسرے کا مثالی احترام کرنے کے ساتھ ’’شاندار خیال‘‘ بھی رکھا۔ نتیجے میں کسی نے مداخلت کی تو انہیں ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی دھمکیاں دینی پڑیں۔ مگر ساتھ ہی ’’احترام کا رشتہ قائم رکھنے والوں نے دھمکی دینے والوں کو ملک سے باہر جانے کے لیے کھلا راستہ بھی دکھایا۔۔۔ اور اس سے زیادہ کیا بھی کیا جاسکتا تھا۔
معصوم شاہد قاخان عباسی کا کہنا تھا کہ: ’’اخباری رپورٹس کے مطابق سیاست دانوں کو ڈرگ اسمگلر کہا گیا یہ مناسب نہیں‘‘۔ چوں کہ اہل وزیر اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ کس کو کس نے ڈرگ اسمگلر کہا ہے، اس لیے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ وزیراعظم کا اشارہ کس کی طرف تھا۔ وطن عزیز میں اس طرح کی ’’باصلاحیت شخصیات‘‘ کی کمی تو نہیں ہے۔ ’’ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں‘‘۔
وزیراعظم شاہد بھائی کا، (اوہ معذرت، کراچی میں رہتے ہیں اور گزشتہ30 سال سے ہر ایک چھوٹے بڑے شریف و بدمعاش کے نام کے ساتھ بھائی لگانے کی عادت ہوگئی ہے) ہو سکتا ہے کہ محترم وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ان کے نام کے ساتھ ’’بھائی‘‘ لگانا بھی ناگوار گزرے اور وہ اپنی اگلی تقریر میں الزام نہ لگادیں کہ: ’’انصاف کرنے والے ناانصافیوں پر اس قدر آگے بڑھ گئے کہ اچھے خاصے وزیراعظم کو بھائی کہہ کر ناجائز رشتے داریاں قائم کرنے لگے ہیں‘‘۔
بہرحال ذکر ہورہا تھا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا جنہوں نے ایک مقامی ٹی وی کو انٹرویو میں دیتے ہوئے کہا کہ: ’’اگر ایگزیکٹیو کا ڈومین عدلیہ چلائے تو پھر معاملہ نہیں چل سکتا‘‘۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آج ایسا ماحول پیدا ہوگیا کہ عدلیہ، میڈیا اور نیب کے حوالے سے کہ بیوروکریسی کے لیے عمدہ چوائس یہ ہے کہ وہ کام نہ کریں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہ ہو، عدلیہ کسی ایجنڈے پر کاربند نہیں ہے بس سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایگزیکٹیو کا کیا رول ہے۔ شاہد خاقان نے یہ بھی کھل کر بتادیا کہ ’’کچھ فیصلوں کی گارنٹی نہیں ہوتی فیصلے غلط بھی ہوتے ہیں‘‘۔
شاید ’’ہی‘‘ کی جگہ جلدی میں وزیراعظم نے ’’بھی‘‘ کا استعمال کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ: ’’سیاستدان کا احتساب تو ہر پانچ سال بعد ہوتا ہے اور وہ عوام کرتے ہیں، عوام سیاست دانوں کا کڑا احتساب کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ سے براہ راست تعامل اور ڈائیلاگ ہونا چاہیے‘‘۔ شاباش وزیراعظم خاقان عباسی صاحب۔ آپ کے اس جملے سے شبہ ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق تاتاریوں کے خاندان سے ہے۔ جو دوستیاں بھی دشمنی کے انداز میں کیا کرتے تھے۔ ویسے آپ جیسے معصوم سیاست دانوں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ آپ لوگ عدلیہ کو بھی اپنی ضرورت کے تحت اسمبلی سے بل منظور کرواکر ’’سیاسی پارٹی‘‘ بناسکتے ہیں۔ پھر ان سے ہر ایشو پر پرانے روایتی انداز میں مذاکرات کرکے اپنی مرضی کے فیصلے کرالے۔۔۔ اس طرح ’’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ کے مصداق سب کچھ مل جل کر چلتا رہے۔ اور عوام جلتا رہے۔
اہل وزیراعظم کی سب سے اہم بات تو یہ تھی کہ انہوں نے کہا کہ: ’’نیب سیاست دانوں کو توڑنے کے لیے اور آمر کے مقصد کو کامیاب کرنے کے لیے بنایا گیا، نیب کے قانون کو چھیڑنے میں خوف میڈیا کا ہوتا ہے،
نیب انصاف کی بنیادی قانون کی نفی نہیں کرسکتا اور نیب بھی قابل احتساب ادارہ ہونا چاہیے، آج نیب کی عدالتوں میں کوئی احتساب کی توقع نہیں ہے، 1999 سے اب تک نیب کی ہفتہ وار کوئی ایسا کیس نہیں جس میں دو پیشیوں سے زیادہ ہوئی ہوں لیکن نواز شریف کی ایک ہفتے میں تین پیشیاں ہوتی ہیں‘‘۔ اپنے نااہل قرار دیے جانے والے پیش رو کا ذکر کرکے شاہد خاقان عباسی نے سارے تذکرے کی پول ہی کھول دی۔ خیال تھا کہ وزیراعظم یہ تمام باتیں معصومیت میں کررہے ہیں لیکن بعد میں پتا چلا کہ یہ سب گفتگو تو اپنے میاں صاحب کی محبت میں انہوں نے کی تھی۔ ’’محبت ہو تو ایسی ہو‘‘۔ مگر لگتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی محبت بھی مفاد پرست عاشق کی طرح یک طرفہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نااہل وزیر اعظم اور صدر مسلم لیگ میاں نواز شریف نے پٹرولیم کی قیمتوں میں تازہ اضافے کے موقع پر یہ بات بھی بلا جھجک یا معصومیت سے کہہ ڈالی کہ: ’’مجھے نکالنے کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ ملک کی معاشی ترقی رک گئی، پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے‘‘۔ میاں شریف صاحب آپ تو بہت بڑے معصوم ہی نہیں بلکہ ’’ڈیش بھی‘‘ لگ رہے ہیں کیوں کہ آپ شاید بھول گئے تھے کہ جس حکومت پر آپ تنقید کررہے ہیں وہ آپ ہی کی بنائی ہوئی ہے اور آپ ہی کی مسلم لیگ کی ہے، بس فرق یہ ہے کہ آپ خود اس میں کہیں نظر نہیں آرہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ کی تخلیق کردہ حکومت اس قدر خراب ہے۔ اگر یہ بات درست تسلیم کرلی جائے تو پھر شکایت کس بات کی میاں نواز شریف صاحب؟ اس صورت حال سے تو آپ کو اپنے اس سوال کا جواب بھی مل ہی گیا ہوگا کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔