لاپتا کرنے کا سلسلہ پھر شروع

295

عدالت عظمیٰ اور لاپتا افراد کمیشن کی جانب سے لوگوں کو لاپتا کرنے کا نوٹس لیے جانے کے بعد اور کچھ مقدمات میں حکومتی اداروں سے سخت باز پرس کے بعد لوگوں کے ملنے، اداروں کے بارے میں معلومات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ کچھ کو اس دوران راؤ انوار کے ہاتھوں مروا بھی دیا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ واپسی کا سفر شروع ہوگیا ہے لیکن گزشتہ دس پندرہ روز میں کراچی سے لوگوں کو لاپتا کرنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا ہے اور تقریباً نصف درجن لوگوں کی اطلاع مل چکی ہے۔ یہ لوگ لاپتا کیوں کیے جاتے ہیں، ان کو قانون کے مطابق کیوں گرفتار نہیں کیا جاتا اور عدالتوں کے حوالے کیوں نہیں کیا جاتا؟ ان سوالات کا جواب کوئی نہیں دیتا۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کو دو چار ماہ بعد یا سال بھر بعد رہا بھی کردیا جاتا ہے اور بیشتر لوگ خاموش رہتے ہیں یا بتاتے ہیں کہ ہمیں خاموش رہنے کو کہا گیا ہے۔ لیکن معلومات کے مطابق ان سب کا معاملہ وہی انسداد دہشت گردی کی جنگ ہے۔ اگر کوئی فرد ریاست کے خلاف جنگ میں ملوث ہے یا خود ہی اعلان جہاد کرکے کارروا ئیاں کررہاہے یا ایسے گروہ کے ساتھ ملاہوا ہے تو اس کو علی الاعلان گرفتار کیا جائے اس کا مقدمہ کھلی عدالت میں چلایا جائے اگر وہ ملوث نکلے تو اسے سزا دی جائے اور بے قصور ہے تو گرفتار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ لیکن پاکستان کی عدلیہ حکومت اور اپوزیشن سب کسی اور ٹرک کی لال بتی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ لوگوں کو لاپتا کرنے کا سلسلہ پہلے بھی ہوا کرتا تھا لیکن خال خال۔ اس کی خبر بہت بڑی خبر قرار پاتی تھی۔ لیکن اب تو صورتحال یہ ہے کہ ہر شہر سے لوگ لاپتا کیے جارہے ہیں اور لاپتا کرنے والے بھی وہی لوگ ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ قبل ان لوگوں کو یا ان کے احباب اور بڑوں کو اس راہ پر لگایا تھا جو آج ہمارے حکمرانوں یا ایجنسیوں کے نزدیک غلط ہوگئی ہے تو پھر اس میں ان لوگوں کا کیا قصور۔ جس قسم کے بیج ڈالے گئے تھے فصل تو اسی طرح کی آئے گی۔ پھر محض شبہات پر لوگوں کو غائب کرنا نہایت نا مناسب بات ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ چار چار ماہ غائب رہ کر گھر آنے والے خاموش ہوجاتے ہیں اور کوئی بات نہیں کرتے۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ انہیں کوئی خوف ہے یا دھمکی دی گئی ہے۔ پھر بہت سوں کو جو لاپتا تھے اچانک مقابلوں میں ماردیا جاتا ہے وہ اور بھی افسوسناک اور غیر قانونی عمل ہے۔ اسے ہم حکمرانوں کی بزدلی یا کمزوری تو نہیں کہہ سکتے۔ انہوں نے صولت مرزا کو بھی پھانسی دی اور ممتاز قادری کو بھی۔ انہیں اس کے نتائج کا علم تھا لیکن کسی کو کسی الزام کے بغیر گھر سے لاپتا کرکے کئی ماہ بلکہ بسا اوقات دو دو سال اپنے پاس رکھ کر اچانک مقابلے میں ماردیا جانا تو سمجھ سے باہر ہے۔ حکمرانوں کو اس جانب بھی توجہ دینی ہوگی۔ عدلت عظمیٰ بھی جس طرح پانایا پھر میاں نواز شریف کے اقامے پھر ان کی پارٹی صدارت اب ان کی قیادت کے پیچھے پڑی ہے اسی طرح لاپتا افراد کے معاملے کے پیچھے بھی پڑجائے لوگوں کو لاپتا کرنے کے پس پشت وہ حکومتی پالیسی ہے جس کی وجہ سے لوگ کبھی جہادی بن رہے تھے اب حکومت کی پالیسی اس کے برعکس ہے تو ایسی پالیسی بنانے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ ہم شام کے حالات پر تو افسوس کررہے ہیں وہاں تو امریکا، روس، فرانس اور دوسری بیرونی قوتیں حملے کررہی ہیں یہاں تو کوئی دوسرا نہیں۔ گرفتار کرنے اور مارنے والے سب اپنے ہیں کہیں تو داد رسی ہونی چاہیے۔