موت کے ٹیکے

373

گزشتہ اتوار کو نوابشاہ سے دل دہلادینے والی خبر پورے پاکستان کے لیے خطرے کا الارم بجاگئی۔ حفاظتی ٹیکے لگوانے والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ یہ بچے خسرے سے بچاؤ کے ٹیکے لگوانے کے لیے اسپتال آئے تھے ٹیکے لگواتے ہی بچوں کی حالت بگڑگئی۔ تین بچے جاں بحق ہوگئے اور 10 کی حالت نازک ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ حادثہ زاید المیعاد ویکسین کے استعمال سے ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ صوبائی وزیر صحت کہتے ہیں کہ لاکھوں بچوں کو یہ ویکسین لگائی گئی ہے تو پھر سب کو ایسا ری ایکشن کیوں نہیں ہوا۔ تاہم یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ غفلت تو محکمہ صحت کی طرف سے ہوئی ہے۔ حکومت نے فوری طور پر لیڈی ہیلتھ ورکر کو پکڑلیا ہے لیکن کیا ساری ذمے داری لیڈی ہیلتھ ورکر کی ہے۔ کسی بھی جگہ ویکسین خریدنے، اسٹور کرنے اور ان کی ایکسپائری کی تاریخ لکھنے کا نظام ہوتا ہے۔ کس نے کب دوائیں خریدیں، کس کس تاریخ کو کون سی دوا کی میعاد ختم ہورہی ہے یہ سب ریکارڈ میں ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ اس کا حساب کیوں نہیں رکھا گیا۔ تازہ واقعہ کی تفصیلی تحقیقات کی ضرورت ہے کیونکہ بچے بخار کی حالت میں آئے تھے تو انہیں کس کے کہنے پر اس حالت میں خسرے سے بچاؤ کے انجکشن لگائے گئے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ سندھ کے دیہات میں ہیلتھ ورکرز پولیو سے بچاؤ کے قطروں کی طرح خسرے اور دیگر وبائی امراض سے بچاؤ کے ٹیکوں کے معاملے میں بھی زبردستی کرتی ہیں۔ ایک واقعہ نوابشاہ کے حسین کا بھی ہے اس کے گھر والوں نے منع کیا تھا کہ اسے ٹیکا نہ لگایا جائے لیکن ہیلتھ ورکر نے کہاکہ پھر اس کا کارڈ نہیں بنایا جائے گا اور زبردستی ٹیکا لگادیا گیا اور یہ بچہ بھی جاں بحق ہوگیا۔ یہ بھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ ویکسین کتنی پاور کی تھیں۔ علاقے کے لوگ کہتے ہیں کہ صرف لیڈی ہیلتھ ورکرز سارے معاملات چلاتی ہیں۔ ڈاکٹرز صرف خصوصی مہمات میں اور تصاویر کھنچوانے آتے ہیں۔ نوابشاہ کے واقعے نے پولیو کے انسداد کے حوالے سے مہم پر بھی سوال اٹھادیا ہے۔ اگرچہ حکومت کہتی ہے کہ ان قطرات میں انسداد پولیو کے لیے ویکسین ہوتی ہے لیکن وہ کس طرح اور کتنی پلائی جانی چاہیے اس حوالے سے کوئی آگہی نہیں ہے۔ بس سارا زور انسداد پولیو کے قطرے پلوانے پر ہے۔ جو نہ پلوائے اسے اسی طرح دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کو سینیٹ کے جوڑ توڑ سے فرصت مل جائے تو اس جانب بھی توجہ دیں کہ بچوں کو حفاظتی ویکسین دی جارہی ہے یا موت کے ٹیکے لگائے جارہے ہیں۔ ویکسین میں کیا ہوتا ہے اس کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے اور کتنی ویکسین دینی ہے اس کی بھی مہم چلائی جانی چاہیے۔