احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد کیا ہوگا

280

سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کی مشکل ترین اننگز کھیل رہے ہیں‘ اسپن باؤلر ہے اور تمام فیلڈرز کیچ پکڑنے کے لیے ان کے گرد‘ بلکہ سر پر کھڑے ہیں‘ یہ مشکل اننگ اٹھائیس جولائی کے فیصلے سے شروع ہوئی اور ابھی تک جاری ہے‘ پہلے فیصلے میں عدلیہ نے انہیں کسی بھی حکومتی عہدے کے لیے ناہل قرار دیا اور وزارت عظمیٰ سے محروم کردیا اور دوسرے فیصلے میں چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار، مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال اور مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن نے نوازشریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا اور بطور پارٹی سربراہ جاری کی گئی ہدایات اور دستاویزات کو بھی کالعدم کردیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کا ماضی سے اطلاق کیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ایسے بہت سے فیصلے موجود ہیں جن کے مطابق کوئی حکم موثر بہ ماضی نہیں ہوسکتا۔ اس بابت آئین کا آرٹیکل 12بھی سزاؤں پر ماضی سے اطلاق سے تحفظ دیتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 2009ء میں پی سی او ججوں کے کیس میں پرویز مشرف کے عبوری آئینی فرمان کے تحت 2007ء میں حلف اٹھانے والے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سفارش پر تعینات ہونے والے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو فارغ کردیا تھا، اس فیصلے کے نتیجے میں عدالت عظمیٰ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے 103ججوں کو گھر جانا پڑا تھا تاہم عدالت عظمیٰ نے ان ججوں کے فیصلوں کو برقرار رکھا، حتیٰ کہ انہوں نے بطور جج جو تنخواہیں وصول کی تھیں وہ بھی واپس نہیں لی گئی تھیں لیکن نواز شریف سے متعلق حالیہ فیصلے نے ایک بحث چھیڑ دی ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹ ٹکٹ تو منسوخ ہوگئے اور انہوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا لیکن کیا نواز شریف کے وہ تمام فیصلے بھی منسوخ ہوئے ہیں جن میں شاہد خاقان عباسی کی بطور وزیر اعظم نامزدگی بھی شامل ہے اگر یہ نامزدگی بھی شامل ہے تو پھر شاہد خاقان عباسی کے فیصلوں کی کیا قانونی اور آئینی اہمیت ہے؟ یہ ایک بحث ہے جس کا جواب قانون اور آئین میں کیا ہے؟ ضرور سامنے آنا چاہیے اگرچہ شاہد خاقان عباسی کو آئین کے آرٹیکل 91کے تحت وزیراعظم منتخب کیا گیا، اس آرٹیکل میں کسی سیاسی جماعت کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی نامزدگی کی کوئی شرط موجود نہیں ہے۔ آئین کے تحت قومی اسمبلی اپنے مسلم ارکان میں سے کسی ایک کو وزیراعظم کے طور پر اکثریت رائے سے منتخب کرسکتی ہے، دوسرے لفظوں میں وزیراعظم منتخب ہونے کے لیے قومی اسمبلی کی کل نشستوں کے 51فی صد ارکان کا ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ میاں محمد نوازشریف کو 28جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے نااہل قراردیا تھا جس کے بعد وہ پارٹی صدارت سے بھی الگ ہوگئے تھے اور وہ آئین اور الیکشن ایکٹ مجریہ2017ء میں ترامیم کے بعد دوبارہ 3اکتوبر 2017ء کو پارٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے جب کہ قومی اسمبلی نے شاہد خاقان عباسی کو یکم اگست 2017ء کو وزیراعظم منتخب کرلیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے بطور جماعت اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے سردار یعقوب خان ناصر کو قائم مقام پارٹی صدر بھی منتخب کیا تھا جو 17اگست سے 3اکتوبر 2017ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔
شاہد خاقان عباسی کو کوئی پارٹی ٹکٹ جاری کیا گیا تھا اور نہ ہی وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے لیے آئینی طور پرکسی پارٹی ٹکٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ سارے فیصلے نواز شریف کی مرضی سے ہوئے‘ اب بحث یہاں ایک نکتہ پر ختم ہونی چاہیے کہ ابہام کے بغیر فیصلے جاری ہوں تو بہتر ہوتے ہیں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلہ میں الیکشن ایکٹ مجریہ 2017ء کے متعلقہ سیکشن 203 اور 232 کو کالعدم نہیں کیا بلکہ ان کی آئین کے آرٹیکلز 62،63 اور 63(اے) کے تحت تشریح کی ہے اور قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63(اے) کے تحت سیاسی جماعت کے سربراہ کا اپنے ارکان پارلیمنٹ کے حوالے سے مرکزی کردار ہے جو کسی نااہل شخص کو ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جہاں تک سینیٹ کے انتخابات کا تعلق ہے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے ٹکٹ اس بنا پر منسوخ ہوگئے ہیں کہ وہ نوازشریف کے دستخطوں سے جاری ہوئے تھے اب ایک اور ماضی کا فیصلہ دیکھ لیں ماضی میں محمد خان جونیجو کیس میں عدالت عظمیٰ نے ان کی حکومت کی برطرفی کو ناجائز قراردیا تھا تاہم انہیں اس بنا پر بحال نہیں کیا تھا کہ اسمبلی کے انتخابات کا شیڈول جاری ہوچکا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے قراردیا تھا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کی بحالی سے انتخابی جمہوری عمل متاثر ہوگا مگر ان کی حکومت کی برطرفی کے ناجائز ہونے کے باوجود انہیں کوئی ریلیف نہیں ملا۔
نواز شریف کی مشکل سیاسی اننگ اب ایک نئی صورت حال میں داخل ہونے والی کہ احتساب عدالت میں مقدمہ کی کارروائی تقریباً مکمل ہونے جارہی ہے اور عدالت فیصلہ سنانے کے قریب ہے‘ عدالت اگر انہیں سزا دیتی ہے تو پھر ایک نیا منظر ہوگا‘ ماضی میں صدر رفیق تاڑر ان کی سزا معاف کر چکے ہیں کیا صدر ممنون حسین بھی یہی کریں گے اور نواز شریف ان سے کوئی ریلیف لیں گے صدر مملکت کو آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت کسی عدالت یا ٹربیونل کی طرف سے مجرم کو سنائی جانے والی سزا معاف کرنے، ملتوی کرنے اور اس میں کمی کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ صدر مملکت صرف جسمانی سزا ہی ختم یا کم کرسکتے ہیں۔ بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ صدر مملکت ایسے مقدمات میں جرمانے کی سزا بھی معاف کرسکتے ہیں تاہم صدر کو جرم ختم کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں نوازشریف کے خلاف عدالتی فیصلوں میں انہیں قید یا دیگر کوئی جسمانی سزا نہیں سنائی گئی ہے، اس لیے صدر کا اختیار ان عدالتی فیصلوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ البتہ انہیں نیب عدالت سے قید کی کوئی سزا ہوجاتی ہے تو صدر اسے معاف کرنے یا اس میں کمی کرنے کے مجاز ہوں گے تاہم وہ ان کی نااہلی کو اہلیت میں نہیں بدل سکتے۔ وہ انہیں اپنے معافی کے اختیار سے دوبارہ پارلیمنٹ نہیں بھیج سکتے بلکہ جیل جانے سے بچا سکتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور سابق وزیراعظم نوازشریف ایک بیانیہ کو لے کر چل رہے ہیں کہ انہوں نے عدلیہ کو آزاد کروایا اور اب عدل کو بھی آزاد کروائیں گے محسوس ہوتا ہے کہ کسی ریلیف کے بجائے احتساب عدالت کے فیصلہ کے بعد نوازشریف اور ان کی سیاسی جماعت اس بیانیہ کو زیادہ شدت کے ساتھ دُہرائے گی۔