بھارت کی سخت گیر مودی حکومت اب اپنے آخری سال میں داخل ہورہی ہے۔ یوں تو پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر افراد اور جماعتوں کے آنے جانے سے عملی طور پر کچھ خاص اثر نہیں پڑتا مگر مودی حکومت کے یہ چار برس پاک بھارت تعلقات کے لیے بدترین دور کے طور پر یاد رکھے جاسکتے ہیں۔ ان چار برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان کوئی بڑی جنگ تو نہیں ہوئی مگر درپردہ جنگ اور سفارتی پنجہ آزمائی پورے زروں پر رہی۔ نریندر مودی نے جہاں ایک طرف پاکستان کو سفارتی تنہا ئی کا شکار کرنے کے لیے مغربی ملکوں اور اداروں کی حمایت سے ایک کھیل جاری رکھا وہیں افغانستان کو بیس کیمپ بنا کر پاکستان کو عملی اور دفاعی اعتبار سے گھیرنے کی کوششیں کم نہیں کیں۔ پاکستان اس دباؤ اور گھیراؤ کو توڑنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ نریندر مودی نے رائیونڈ کا اچانک دورہ کرکے ایک کارڈ پھینکے کی جو کوشش کی تھی اس کا مقصد پاکستان کی نو تشکیل حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات کو خراب کرنا یا سیاسی حکومت کی طاقت کا اندازہ لگانا تھا۔ مودی کا یہ کارڈ اس طرح کامیاب رہا کہ اس سے حکومت اور فوج میں پہلے مرحلے پر بدگمانی اور فاصلے بڑھنا شروع ہوگئے اور باقی مدت مودی ’’سرپرائز وزٹ‘‘ کا کارڈ پھینک کر تماشا دیکھتے رہے۔
پاکستان اور بھارت کے اختلافات اب ایک ایسے موذی مرض میں ڈھل کر رہ گئے ہیں کہ کسی ایجنڈے کے بغیر سرپرائز وزٹ اور خفیہ ملاقاتوں جیسی وقتی دواؤں اور تدابیر سے اس کا علاج ممکن نہیں رہا۔ یہ تعلقات ایک ایسی جراحی کے متقاضی ہیں کہ جس میں شک، بدگمانی، وقت گزاری، بالادستی اور حقیقی مسائل کو قالین تلے دبانے جیسے عناصر کو کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ یہ کہنا آسان تو ہے اس پر عمل کرنا اگرچہ قطعی ناممکن تو نہیں مگر اس لفظ سے قریب تر ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں دو ہمسایوں کے پیچیدہ اور کشیدہ تعلقات کے کواڑوں پر مستقل طور پر تالے چڑھے اور جالے پڑے رہیں۔ مودی حکومت کے آخری سال میں اس حوالے سے تبدیلی کے کچھ آثار نظر آنے لگے ہیں اور اس کا ثبوت بھارت میں حزب اختلاف کی دو اہم جماعتوں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی طرف سے مودی حکومت کو پاکستان سے مذاکرات بحال کرنے کے مشوروں سے ملتا ہے۔ ان دونوں جماعتوں نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حکومت کی کوئی پاکستان پالیسی ہی سرے سے نہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ترجمان رسالے پیپلز ڈیموکریسی نے تو اداریے میں یہاں تک لکھا ہے کہ مودی حکومت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کر کے خود کو ایک کونے میں بند کردیا ہے۔
دو اہم بھارتی جماعتوں کے طرف سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات بحال کرنے کے مطالبات سامنے آنے سے چند دن قبل افغانستان میں سہ ملکی تاپی گیس پائپ لائن کا افتتاح ہوا۔ پاکستان اس منصوبے میں بھارت کی شمولیت کا مخالف رہا ہے مگر بھارت افغانستان کے ذریعے اس منصوبے میں شامل ہونے کے لیے بے تاب رہا ہے۔ بھارت کی شمولیت پر اصرار کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس کی خریداری اور ایک پائپ لائن کی تعمیر کا معاہدہ کیا تھا۔ اب پاکستان نے اس منصوبے میں بھارت کی شمولیت کو نہایت خاموشی سے تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی تقریب میں پاکستان، افغانستان اور ترکمانستان کے سربراہان مملکت کے ساتھ بھارتی نمائندے بھی موجود تھے۔ اس گیس پائپ لائن کو شاہد خاقان عباسی نے ’’پیس پائپ لائن‘‘ کا نام دیا اور کہا تھا کہ یہ تجارتی منصوبہ قیام امن کے لیے بھی اہم ہے۔ تاپی پائپ لائن کے ذریعے پاکستان بالواسطہ ہی سہی بھارت کے ساتھ ایک بڑے مشترکہ تجارتی منصوبے میں شامل ہو گیا ہے۔ شاید یہیں سے دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاملات اور پیش آمدہ مسائل ’’کچھ لواور کچھ دو‘‘ کے تحت حل ہونے کا امکان ہے۔ تاپی منصوبہ روبہ عمل ہوتا ہے تو اس قدر بڑی تجارتی سرگرمی میں شریک دو ہمسایہ ملک اپنے اختلافات کو ایک حد سے آگے بڑھانے کے متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ اس گیس پائپ لائن کی حفاظت کی خاطر تجارتی ضرورتیں اور معاشی مجبوریاں پاکستان کو افغانستان میں اور بھارت کو پاکستان میں امن قائم کرنے کے لیے سنجیدہ کردیں گی۔
تاپی سے پاکستان اور بھارت کے مستفید ہونے کا مطلب جنوبی ایشیا کے دو ملکوں کا استفادہ نہیں بلکہ پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے والے چین اور بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والے امریکا کا استفادہ کرنا بھی ہے۔ اس دوران بھارتی اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں ایک اہم مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کو شاہد خاقان عباسی کے دیے گئے نام ’’پیس پائپ لائن‘‘ کا نام دیا گیا۔ مضمون میں انکشاف کیا گیا کہ آخری سال میں داخل ہوتی ہوئی مودی حکومت کو احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان کو امریکا کے ذریعے دبانا ہی کافی نہیں رہا بلکہ اب اس ملک کے ساتھ براہ راست معاملات طے کیے جانا ضروری ہے۔ یوں مودی حکومت اپنی پاکستان پالیسی پر نظرثانی کر رہی ہے مگر اس کا انحصار پاکستان کی طرف سے حافظ سعید اور ذکی الرحمان لکھوی کے خلاف ٹھوس اقدامات پر ہے۔ مضمون میں انکشاف کیا گیا کہ اب دہلی کے پالیسی ساز حلقوں میں سارک کانفرنس کے پاکستان میں انعقاد کا معاملہ بھی دوبارہ زیر غور آنے لگا ہے۔ بھارت نے اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا جس کے بعد افغانستان اور بنگلا دیش جیسے ملکوں نے بھی بھارت کی دیکھا دیکھی اس کانفرنس میں شرکت سے معذوری ظاہر کی تھی اور یوں کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد ناممکن ہو کر رہ گیا تھا۔ مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں دونوں ملکوں کی قومی سلامتی کے مشیروں اجیت دوول اور ناصر جنجوعہ نے خفیہ مذاکرات میں تعلقات کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ جس کے تحت دونوں ملکوں کی جیلوں میں قید بچوں، خواتین اور ذہنی معذوروں کو رہا کیا جانا ہے۔ دونوں ملکوں کی قید میں پچاس ایسے قیدی ہیں جو ذہنی طور پر معذور ہیں۔ قومی سلامتی کے مشیروں کے خفیہ مذاکرات کے بعد اکتیس جنوری سے دو فروری تک پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد بھی دہلی کا دورہ کر چکا ہے۔ وفد میں وزرات خارجہ میں انسداد دہشت گردی سے متعلق ڈیسک کے ڈائریکٹر جنرل بھی شامل تھے۔ ان پس پردہ سرگرمیوں میں ایک نیا موڑ رواں ماہ کے تیسرے ہفتے میں آنا ہے جب دہلی میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام وزرا سطح کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کا ایک اہم وفد پرویز ملک کی قیادت میں شریک ہوگا۔ یہ وفد بھارت کے وزیر تجارت مسٹر سریش پرابھو سے بھی ملاقات کرے گا۔ انڈین ایکسپریس کے تجزیہ نگار کا تاثر ہے کہ بھارت اب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ صرف امریکا سے دباؤ ڈلوا کر پاکستان کو رام کیا جانا ممکن نہیں اس کے لیے براہ راست معاملات طے کرنے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ بھارتی مضمون نگار کی بات اپنی جگہ مگر عین ممکن ہے کہ امریکا نے بھی بھارت کو کہہ دیا ہو کہ وہ ایک حد سے زیادہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا متحمل نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس دباؤ کا جواب پاکستان افغانستان میں دے سکتا ہے جہاں امریکی فوج حالات کی دلدل میں دھنس کر رہ گئی ہے۔ امریکا کی اسی معذوری نے بھارت کوپاکستان سے تعلقات کی نارملائزیشن کی راہ پر ڈال دیا ہے۔