اور….. تبدیلی آگئی!

322

بالآخر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تیسری شادی کا اعتراف کر ہی لیا۔ بہاولپور کے ایک سبزی فروش نے نئی بھابی کے لیے ہیرے کی انگوٹھی بنوائی ہے جو کسی مناسب موقعے پر تحفتاً پیش کرنے کی سعادت حاصل کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایک سبزی فروش تحفتاً ہیرے کی انگوٹھی پیش کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو ٹیکس کتنا ادا کرتا ہوگا؟۔ اگر وہ ٹیکس گزاروں میں شامل نہیں تو اس سے یہ گزارش کی جاسکتی ہے کہ بھائی صاحب! اللہ نے آپ کو ہیرے کی انگوٹھی تحفتاً پیش کرنے کی توفیق دی ہے تو ٹیکس بھی ادا کیا کرو تا کہ تم ایک با وفا اور اچھے سیاسی کارکن ہی نہیں ایک محب وطن شہری اور نیک دل انسان بھی سمجھے جاؤ۔ یوں تو تحریک انصاف کے عمران خان کی تیسری شادی پر تبصرے تو سبھی نے اپنے اپنے خیالات اور مکتبہ فکر کے مطابق بہت دلچسپ اور دلکش کیے ہیں مگر ہمیں وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا تبصرہ حقیقت سے زیادہ قریب اور دلچسپ محسوس ہوا۔ کہتے ہیں، عمران خان اچھا کام بھی
بُرے اور رسوا کن انداز میں کرتے ہیں، شادی کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے، انتہائی نیک اور بہت اچھا کام ہے مگر عمران خان اسے بھی بدنام اور رسوا کرنا شہرت کا سبب قرار دیتے ہیں۔ شادی کرنا اور شادی کے بعد انکار کرنا اور پھر اس انکار پر ڈٹ جانا سمجھ سے بالاتر ہے اور پھر اپنے انکار کو اقرار کا پیراہن پہنانا ان کا وتیرا بن چکا ہے۔ شاید اس طرح وہ جس تبدیلی کا شور مچاتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں۔
عام مشاہدہ ہے کہ آدمی پہلے شوہر بنتا ہے اور پھر زن مرید بن جاتا ہے مگر عمران خان پہلے ’’زن مرید‘‘ بنے اور پھر شوہر بن گئے، واقعی! یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ علم الاعداد اور علم نجوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کی شادی 15 فروری 2018ء کے بعد ہوئی ہے تو یہ اتفاق فونڈری کے لوہے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگی اور اگر 15 فروری 2018ء سے پہلے ہوئی ہے تو مٹھی میں بھری ریت ثابت ہوگی۔ جمائما اور اس کے بیٹے اس بارے میں کیا سوچ رہے ہیں یہ تو خدا ہی جانتا ہے اور جو جانتے ہیں وہ خاموش سفارت کار بنے ہوئے ہیں کہ بعض اوقات تیل میں ملاوٹ کے بجائے تیل کی دھار دیکھنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ عمران خان کی دوسری اہلیہ ریحام خان کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی شادی یکم جنوری 2018ء کو ہوئی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رہنما نے بڑا دل آزار انکشاف کیا ہے، کہتے ہیں شادی ایک نیک فریضہ ہے، سنت رسول پاکؐ ہے۔ انسان اور معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے، مگر کسی دوسرے کا گھر برباد کرکے اپنا گھر آباد کرنا ایک غیر انسانی اور غیر مہذب عمل ہے، ان کے خیال میں ایسی شادی، شادی نہیں ہوتی بلکہ یہ عمل کسی کی عورت پر قبضہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ موصوف نے اس معاملے میں علما کرام کی رائے بھی طلب کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔
ہم نے اپنے کسی گزشتہ کالم میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ پر لعنت ملامت کرنا ووٹروں کی توہین ہے، ووٹ کی تذلیل ہے، ووٹ کا تقدس تو پہلے بھی نہ تھا مگر اب تو کھلم کھلا بے توقیر کیا گیا ہے۔ ہم نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ عمران خان اور ان کے مشیر اعلیٰ نے پارلیمنٹ کے گلے میں لعنت کا جو طوق ڈالا ہے وہ کہیں عمران اینڈ کمپنی کے گلے کی زینت ہی نہ بن جائے۔ لودھراں کے حلقے 154 کے ووٹروں نے پیر اقبال شاہ کے سر پر کامرانی کا تاج سجا کر ہمارے خدشے کی تصدیق کردی ہے۔