سری دیوی اور پورس کے ہاتھی

695

بھارتی اداکارہ آنجہانی سری دیوی کے انتقال کی خبر جیو کے کم از کم پانچ خبرناموں میں پہلی شہ سرخی کے طور پر نشر ہوئی۔ کہنے کو یہ صرف ایک فقرہ ہے مگر اس ایک فقرے میں ایک بڑی کہانی پوشیدہ ہے۔
کسی کو پسند ہو یا نا پسند ہو فلم گزشتہ سو سال سے ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کا حصہ ہے۔ فلموں کے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ چناں چہ فلموں کے اداکار محض اداکار نہیں رہے ہیں وہ ہمارے ’’ہیرو‘‘ ہیں ہمارے ’’Icons‘‘ ہیں۔ چناں چہ ان سے متعلق کوئی بھی اہم بات خبر بننے میں دیر نہیں لگاتی۔ لیکن خبر خبر میں بھی فرق ہوتا ہے۔ ایک کالم کی خبر کا اثر کچھ اور ہوتا ہے، دو کالم کی خبر کا اثر کچھ اور، چھ کالم کی خبر کچھ اور بتاتی ہے اور شہ سرخی کچھ اور۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سری دیوی کے انتقال میں خبریت موجود تھی لیکن اتنی نہیں کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے ٹی وی چینل کے پانچ بلیٹنز کی پہلی شہ سرخی ہو۔ اس کی وجہ ہے۔ خبروں کا ایک اصول قرب مکانی ہے۔ پاکستان میں ٹرین کے حادثے میں دس افراد بھی جاں بحق ہوجائیں تو یہ حادثہ ہمارے لیے شہ سرخی تخلیق کرے گا لیکن روس، چین یا بھارت میں اگر ٹرین کے حادثے میں 100 لوگ بھی ہلاک ہوجائیں تو وہ ہمارے اخبارات میں دو ،تین یا چار کالموں کی خبر بن کر سامنے آئے گا۔ اس اعتبار سے اگر جیو کو سری دیوی کا غم کھائے جارہا تھا تو بھی صرف یہ ہوسکتا تھا کہ جیو کی دس سرخیوں میں آٹھویں سرخی سری دیوی سے متعلق ہوتی۔ اس لیے کہ سری دیوی بھارت کی اداکارہ تھیں پاکستان کی اداکارہ نہیں۔ لیکن جیو نے سری دیوی کا ماتم اس طرح کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کا فرق ہی مٹ گیا اور خبروں سے متعلق صحافت کا دائمی اصول یعنی ’’قرب مکانی‘‘ مذاق بن کر سامنے آکھڑا ہوا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا؟ یا ’’ایجنڈا سیٹنگ؟‘‘ کہا جاتا ہے کہ فن کی سرحدیں نہیں ہوتیں لیکن اب نام نہاد فن کیا علم تک کی سرحدیں ہیں۔ ذرا کوئی امریکا اور یورپ کی کسی یونیورسٹی میں پاکستان کے کسی طالب علم کو نیوکلیئر فزکس میں داخلہ تو دلوا کر دکھائے۔ فن کی سرحد نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود بھارت نے پاکستان کے اداکاروں اور گلوکاروں ہی کو نہیں تکنیکی ماہرین تک کو بھارتی فلم انڈسٹری میں کام کرنے سے روک دیا۔ فلم کی سرحد نہیں ہوتی اور فن ’’آفاقی‘‘ ہوتا ہے مگر اس کے باوجود بھارت نے گزشتہ بیس پچیس سال میں ڈیڑھ درجن سے زیادہ پاکستان مخالف فلمیں تخلیق کی ہیں اور بتایا ہے کہ فلم جیسا تفریحی میڈیم بھی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک فلم ’’ماں تجھے سلام‘‘ میں ایک بھارتی اداکار کہتا ہے کہ پاکستان اتنا سا ملک ہے کہ اگر ہم پاکستان کی سرحد پر کھڑے ہو کر پیشاب کردیں تو پاکستان سیلاب میں ڈوب جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب پاکستان بھارتیوں کے پیشاب سے برپا ہونے والے سیلاب میں ڈوبے گا تو معلوم نہیں کہ سری دیوی کے غم میں پاکستان کو ڈبونے والے ہمارے چینلز، جاتی امرا اور وہ ریٹائرڈ جرنیل بچیں گے یا نہیں جو عالمی طاقتوں کے دباؤ پر خفیہ ملاقاتوں میں بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ یہاں ہمیں سیلاب کے بارے میں سلیم احمد کا ایک شعر یاد آگیا۔
بستی کے گھروں کو کیا دیکھے بنیاد کی حرمت کیا جانے
سیلاب کا شکوہ کون کرے سیلاب تو اندھا پانی ہے
ہمیں یاد آیا کہ خبر اور خبریت کا ایک اصول بڑی شخصیت ہے۔ بڑی شخصیت بڑی خبر تخلیق کرتی ہے۔ سری دیوی بڑی شخصیت کیا بڑی اداکارہ بھی نہیں تھیں۔ بلاشبہ انہوں نے 300 فلموں میں کام کیا مگر انہیں آخری وقت تک اداکاری نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کبھی مینا کماری اور وحیدہ رحمن کا پاسنگ بھی نہیں سمجھا گیا۔ ہمارے ٹی وی چینلوں بالخصوص جیو نے سری دیوی کی موت کو جو اہمیت دی وہ اہمیت صرف برصغیر کے ایک اداکار کو میسر آسکتی ہے۔ وہ اداکار ہے دلیپ کمار۔ دلیپ کمار برصغیر میں فن اداکاری کے میر تقی میر ہیں۔ میر نے کہا ہے۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
دلیپ کمار نے کبھی یہ نہیں کہا مگر وہ بھارت میں اداکاری کے سو برسوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک بار امیتابھ بچن نے کہا تھا کہ ہندی فلموں کے دو عہد ہیں۔ ایک عہد دلیپ کمار سے پہلے کا اور ایک عہد دلیپ کمار کے بعد کا۔ یہ وہی بات ہے جو شیکسپیئر کے بارے میں کہی گئی ہے۔ یعنی انسانی نفسیات کی تفہیم کے دو دور ہیں۔ ایک دور شیکسپیئر سے پہلے کا اور ایک دور اس کے بعد کا۔ انوپم کھیر نے دلیپ کمار کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے ایک بار تسلیم کیا تھا کہ بھارت کا ہر اداکار چھوٹا موٹا دلیپ کمار بننے کی کوشش کرتا ہے۔ چناں چہ اگر خدانخواستہ دلیپ کمار کا انتقال ہوجائے تو دلیپ کمار دو تین خبرناموں کی شہ سرخی بن سکتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سری دیوی دلیپ کمار کی دال کے برابر بھی نہیں ہیں۔ مگر انہیں پانچ بلیٹنز کی پہلی شہ سرخی بنادیا گیا۔ یہ قومی شعوری ہی کی نہیں فن صحافت اور فن اداکاری کی بھی تذلیل ہے۔ یہ چیونٹی کو ڈائنا سار بنانے کا عمل ہے۔ یہ پاکستان پر بھارتی ہیروز کی خود ساختہ اہمیت مسلط کرنے کی کوشش ہے۔
قائد اعظم نے کہا ہے کہ قوم اور صحافت کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی صحافت زوال کی طرف جاتی ہے تو قوم عروج کی طرف نہیں جاسکتی۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہر قوم اپنے ایجنڈے کے مطابق اُبھرتی ڈوبتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا قومی ایجنڈا کیا ہے؟ پاکستان کا ایجنڈا پاکستان کا نظریہ ہے، اسلامی تہذیب ہے، اسلامی تاریخ ہے، ہمارا تصور انسان ہے، تصورِ اقدار ہے۔ علم کا فروغ ہے، قومی اتحاد ہے، قومی دفاع ہے، غربت کا خاتمہ ہے، روزگار کی فراہمی ہے، امریکا کی بالادستی کا خاتمہ ہے، نظریاتی و سیاسی آزادی ہے، عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات ہے، ہمارے ذرائع ابلاغ کی خبروں کی شہ سرخیاں یہاں سے آنی چاہئیں۔ ہمارے ٹاک شوز کو ان اور اس طرح کے دیگر موضوعات کے گرد طواف کرنا چاہیے، ہمارے ہیروز اور ہمارے Icons کا تعین بھی اسی اعتبار سے کیا جانا چاہیے۔ آپ غور کیجیے اور بتائیے کہ ان میں سے کون سی چیز ہمارے اخبارات، ہمارے ریڈیو اور ہمارے ٹیلی ویژن چینلوں پر زیر بحث ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی موضوع ہمارے ذرائع ابلاغ کا مرکزی موضوع نہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمارے نام نہاد قومی ذرائع ابلاغ اپنی اصل میں ’’قومی ذرائع ابلاغ‘‘ نہیں ہیں۔ اس کے برعکس وہ پورس کے ہاتھی بنے ہوئے ہیں۔ پورس کے ہاتھیوں کی اصطلاح کا پس منظر یہ ہے کہ پورس کے ہاتھیوں نے اپنے ہی لشکر کو کچل دیا تھا۔ ہمارے ذرائع ابلاغ بھی اپنی ہی مذہبی، تہذیبی، اخلاقی، علمی اور اقداری صفوں کو تہہ و بالا کررہے ہیں۔ ان ذرائع کی موجودگی میں ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ پاکستان میں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کا کام کررہے ہیں۔ وہ قوم کے Ideals کو بدل رہے ہیں۔ وہ قوم کے ہیروز کو تبدیل کررہے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ جوتوں کو قوم کے سر پر رکھ رہے ہیں اور ٹوپی کو پیروں تلے روند رہے ہیں۔ یہ تصور محال تھا کہ سابق کمیونسٹ ریاستوں کے ذرائع ابلاغ سوشلزم کی روح کے منافی ایک لفظ بھی لکھ سکتے ہوں گے۔ سوشلزم کمیونسٹوں کا ’’دین‘‘ تھا، ان کی ’’تہذیب کی بنیاد‘‘ تھا،ان کی ’’تاریخ‘‘ تھا۔ چناں چہ سوشلزم کے نظریے کے خلاف نہ خبر بن سکتی تھی، نہ شہہ سرخی تخلیق ہوسکتی تھی، نہ ڈراما لکھا جاسکتا تھا، نہ فلم بنائی جاسکتی تھی۔ مغربی ممالک میں مغربی تہذیب کے بنیادی تصورات کے خلاف کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ ذرا کوئی امریکا میں اسامہ بن لادن اور ملاعمر کو ایک حریت پسند کے طور پر پیش کرکے دکھائے؟ کوئی اس سلسلے میں فلم کیا ایک شہ سرخی ہی شائع یا نشر کرکے دکھائے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آپ اسلام کے خلاف فلم بنانا چاہیں ممکن ہے، ڈراما تخلیق کرنا چاہیں ممکن ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں عریانی و فحاشی کا جو سیلاب آیا ہوا ہے وہ یہ بتا رہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کا کوئی والی و وارث نہیں۔
اس سلسلے میں ہمارا واحد سہارا ’’مذہبی شعور‘‘ ہے مگر پاکستان میں موجود مذہبی شعور کا کیا عالم ہے اس کا اندازہ یکم مارچ 2018ء کے روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی خبر سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ خبر کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پشاور میں یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کے اجتماع نے پیغام دیا ہے کہ پاکستانی عریانی و فحاشی سے نفرت کرتے ہیں۔ روزنامہ دنیا کی خبر کے مطابق مولانا نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہم نے پہلے بھی امریکا کا راستہ روکا اور آج بھی روکیں گے۔ ہمیں مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان پڑھ کر سلیم احمد کے ایک مضمون کا عنوان یاد آگیا۔ مضمون کا عنوان تھا ’’اسلامی زندگی مع چھ رنگین ناچوں کے‘‘ یہ فقرہ سلیم احمد کی ایجاد نہیں تھا بلکہ یہ 1960ء کی دہائی کے اخبار میں شائع ہونے والے ایک فلمی اشتہار کے جملے کا حصہ تھا۔ فلمی اشتہار کا پورا فقرہ یہ تھا۔
’’کفر کی طاقتوں کو اسلامی قوتوں کا دندان شکن جواب مع چھ رنگین ناچوں کے۔کی وضاحت یہ ہے کہ 1960 میں بننے والی فلم میں فلم ساز نے کفر کی طاقت کو جو دندان شکن جواب دیا تھا اس کا ایک مرکزی حوالہ فلم میں موجود چھ رنگین ناچ بھی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اس فقرے کا نیا ورژن پیدا کرلیا ہے۔ جو اس طرح ہے۔
’’کفر کی طاقتوں کو اسلامی قوتوں کا دندان شکن جواب مع چھ رنگین بیانات کے‘‘۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایک بیان تو مولانا نے دے دیا ہے مزید پانچ بیانات کو ابھی آنا ہے۔ ان بیانات کے شائع اور نشر ہوتے ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان عریانی و فحاشی سے مکمل طور پر پاک ہوجائے گا اور امریکا کی پاکستان میں پیش قدمی بھی مکمل طور پر رُک جائے گی۔ یہ سب اپنی جگہ مگر مذہبی شعور سے توقع لگانے والے پوچھ رہے ہیں کہ کیا جمعیت علمائے اسلام کے یوتھ کنونشن اور اس میں ہونے والے مولانا کے خطاب سے ہم یہ کیسے سمجھ لیں کہ پاکستانی قوم عریانی و فحاشی سے نفرت کرتی ہے۔ کیا جے یو آئی کے یوتھ کنونشن میں دینی مدارس کے طلبہ کے سوا بھی کوئی موجود تھا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ مولانا نے ماضی یا حال میں امریکا کی پیش قدمی کب اور کہاں کہاں روکی ہے؟ اس سلسلے میں دو تین مثالیں بھی پیش کردی جاتیں تو مزا آجاتا۔ نہ جانے کس کا مصرع ہے ؂
یہی ’’چراغ‘‘ جلیں گے تو ’’روشنی‘‘ ہوگی