پاکستانی مصنوعات یورپی ممالک برآمد کرنے کے لیے ڈیوٹی فری سہولت 2014 ء سے میسر ہے

391

کراچی: یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو بغیر ڈیوٹی ادا کیے پاکستانی مصنوعات کو یورپ کے ممالک میں برآمد کرنے کی سہولت سال2014 سے میسر ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے برآمدکنندگا ن کو خاطر خواہ منافع حاصل ہواہے اور ملک کی معیشت کو بھی فائدہ ہوا ہے جس میں ملک میں آنے والا کثیر غیر ملکی زرمبادلہ شامل ہے۔ یہ بات کراچی پریس کلب میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے کرامت علی ، سندھ لیبر سالیڈرٹی کمیٹی کے حبیب الدین جنیدی،عورت فاؤنڈیشن کراچی کی مہناز رحمان، سندھ ہیومین رائیٹس ڈفینڈرس نیٹ ورک کی سیما مہیشوری، اربن ریسورس سینٹرکے زاہد فاروق، پاکستان فشر فوک فورم کے سعید بلوچ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔

انہوں نے اس موقع پرکہا کہ یورپی یونین کی یہ سہولت کچھ اہم شرائط پر مہیا گی گئی ہیں۔ ان شرائط کے تحت پاکستان کو اقوام متحدہ ودیگر بین الاقوامی اداروں سے کیے گئے 27اہم معاہدات، کنوینشنز اور کووننیٹس پر دستخط اور منظورکرنا لازم ہے اور ان پر عمل درآمد کے عملی اقدامات لینے ہوں گے۔ خوش قسمتی سے پاکستان نے تمام کے تمام 27 کنوینشنز اور کوویننٹس پر اس معاہدے سے پہلے ہی سے دستخط کیے ہوئے ہوئے ہیں اور اکثر پر عمل درآمد کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی کیے ہیں۔ ان 27 بین الاقوامی معاہدات میں7 انسانی حقوق سے متعلق ہیں اور8 مزدور حقوق سے متعلق ہیں۔ باقی معاہدات ماحولیات اور اچھی حکمرانی کے موضوعات پر مبنی ہیں۔ ہر دو سال کے بعد یورپی یونین کے جانب سے جی ایس پی۔

پلس کی سہولت کے حامل ممالک میں 27 بین الاقوامی معاہدات پر عمل درآمد کی صورتحال پر مبنی جائزہ رپورٹ یورپی پارلیمینٹ میں پیش کی جاتی ہے۔ پہلی رپورٹ جنوری 2016ء کو پیش کی گئی تھی۔ اس سال19 جنوری کو پاکستان سے متعلق دوسری رپورٹ پیش کی گئی ہے، جس میں پاکستان میں انسانی حقوق ، مزدورحقوق اور ماحولیات سے متعلق صورتحال کا جائزہ لیاگیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بین الاقوامی معاہدات پر عمل درآمد کے سلسلے میں مناسب تجاویز بھی مہیا کی گئی ہیں۔ ان معاہدوں سے متعلق پاکستان کی جانب سے پچھلی رپورٹ کے بعد کیے گئے تمام وعدوں پر عمل درآمد کی صورتحال بھی پیش کی گئی ہے، اور ان وعدوں کی یاددہانی بھی کرائی گئی ہے۔پاکستان کے لیے یہ رپورٹ بہت ہی اہم ہے، خاص طور پر وفاقی حکومت اور تاجر برادری کے لیے، جو کہ اس سہولت سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

یورپی یونین کی جانب سے اس رپورٹ کی تیاری کے دوران پاکستان میں کام کرنے والی اہم انسانی حقوق و مزدور حقوق کی تنظیموں سے بھی مشاورت کی گئی تھی اور ان کی جانب سے دی گئی رائے کو بھی اس جائزہ رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ پائلر کی جانب سے گذشتہ سال دو وفود نے بھی یورپی یونین کے ممالک کا دورہ کیا تھا اور اراکین کو پاکستان میں انسانی و مزدور حقوق کی صورتحال واضح کی گئی تھی۔پائلر کی جانب سے جی ایس پی ۔پلس سے متعلق اس دوسری میڈیا بلیٹن میں یورپی یونین کی جانب سے تازہ پیش کی گئی جائزہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق اور مزدور حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدات پرعمل درآمد کی صورتحال سے متعلق چیدہ چیدہ موضاعات شامل کیے گئے ہیں

ہم امید کرتے ہیں کہ یہ بلیٹن ان موضوعات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ سب سے پہلے تو ہم یورپی یونین کے شکر گذار ہیں کہ ان کی پارلیمنٹ نے پاکستان کے لیے جی ایس پی۔پلس کی سہولت مزید دو سال کے لیے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اس سہولت کی وجہ سے سیکڑوں کارخانے جو برآمدی مصنوعات کی تیاری کرتے ہیں وہ اپنی پیدوار جاری رکھیں گے جس کی وجہ سے پاکستان میں مزدوروں کے روزگار کی صورتحال بہتر ہوگی اور صنعت کاروں کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے معاشی حالات میں مزید بہتری آئے گی۔ اس جائزے کے دوران کچھ حلقوں کی جانب سے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ اگر یہ سہولت ختم کی گئی تو سیکڑوں فیکٹریاں بند اور کئی لاکھ مزدور بے روزگار ہوسکتے تھے ۔

ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان اب اس سہولت سے مکمل فائدہ حاصل کرنے کے لیے انسانی حقوق و مزدور حقوق سے متعلق 27اہم بین معاہدات پر عمل درآمد کرنے کے لیے اقدامات تیز کرے گی تاکہ یہ سہولت مزید جاری رہے۔ آئی ایل او کے 8 بنیادی مزدور معیارات سے متعلق اس رپورٹ میں صوبوں میں کی گئی قانون سازی کا ذکر کیاگیا ہے، اور ساتھ میں ان قوانین پر عمل درآمد کوغیر تسلی بخش بھی قرار دیا گیا ہے۔ ہم اس موقع پر صوبہ سندھ میں کی گئی ریکارڈ لیبر قانون سازی کا خصوصی ذکر کریں گے۔ صوبہ سندھ پاکستان کا پہلا صوبہ ہے جہاں 18ویں آئینی ترمیم کے کے پہلی بار سہہ فریقی لیبر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور پہلی لیبر پالیسی کا اجراء کیا گیا ہے۔ ہم دیگر صوبائی حکومتوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں

وہ اپنے اپنے صوبوں میں سہہ فریقی لیبر کانفرنس منعقد کریں جو کہ آئی ایل او کے کنونشن 144کے تحت ہرسال منعقد کرنا لازم ہے۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میں مزدوروں کو ٹریڈ یونین بنانے کے بنیادی حق کے فروغ دینے، لیبر انسپیکشن کے نظام کو بہتر بنانے اور کام کرنے والی جگہ پر صحت و سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔ یورپی یونین کی اس رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیاہے، خاص طور پر ملک بھر میں جبری گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات، اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور ان میں بڑھتا ہوا عدم تحفظ کا احساس، مذہب کی جبری تبدیلی، توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے واقعات، بنیادی انسانی حقوق خاص طور پر اظہار رائے کی آزادی اور انجمن سازی کی آزادی میں حکومتی و غیر حکومتی عناصر کی جانب سے قدغن، فوجی عدالتوں کے قیام میں مزید دو سال کے لیے توسیع، سزایافتہ قیدیوں کی پھانسیوں پر دوبارہ عمل درآمد اور مزدوروں کے لیے سماجی تحفظ کی عدم دستیابی کی نشاندہی کی گی ہے اور حکومت پاکستان کو صورتحال کی بہتری کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے اس سہولت سے مکمل فائدہ حاصل نہیں کیا ۔ ہمیں موقع میسر آیا ہے کہ ہم اس سہولت سے مکمل فائدہ حاصل کریں ۔ اس کے لیے ہیں عملی اقدامات لینے ہوں جس میں انسانی و مزدور حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانا ، صنعتی پیداوار بڑھانے کے لیے صنعتوں کو مراعات دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بنیادی انسانی حقوق کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔