پی پی پی کہاں جارہی ہے؟ 

385

سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے انتخابات 12 مارچ کو ایوان بالا اسلام آباد میں ہوں گے۔ مگر ان انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے اندر جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ سابق سینیٹر و پی پی پی کے سیکرٹری جنرل اور آصف زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے سینیٹ سے رخصت ہوتے ہوئے دیگر باتوں کے ساتھ اپنی جماعت کے لیے بھی صاف مگر کڑوی بات کی تو یہ قیادت کو برداشت نہ ہوسکی نتیجے میں ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ترجمان کی حیثیت چھین لی گئی۔ فرحت اللہ بابر جو پارٹی کے سینئر ترین رہنما اور بے نظیر بھٹو کے قابل اعتماد ساتھیوں میں شمار کیے جاتے ہیں نے سینیٹ میں الووداعی تقریر میں پیپلز پارٹی کی پالیسیوں سے متعلق تنقید کی جو ان کے لیے مہنگی پڑگئی کیوں کہ ان کھری اور صاف باتوں پر انہیں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز اور آصف زرداری کے ترجمان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ 6 مارچ کو سینیٹ میں الوداعی خطاب کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ افسوس ہے پیپلز پارٹی نے بھی پارلیمنٹ کی آزادی پر سمجھوتا کیا اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹ کی بالا دستی سے ہٹ گئی ہے۔ خیال ہے کہ فرحت اللہ بابر پر اس فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن پیپلز پارٹی میں مرکزی سطح پر اختلافات شروع ہوجائیں گے جس سے آصف زرداری کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔ جب کہ پارٹی سے باہر فرحت اللہ بابر کی عزت میں اضافہ ہوگا کیوں کہ کھری اور سچ بات کرنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی روایت ابھی معاشرے میں برقرار ہے۔ سچ بات بلا خوف و خطر کرنے والوں کو مصلحت پسندی اور لگی لپٹی باتیں کرنے والوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے لیے کی جانے والی توڑ جوڑ کے دوران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری کا چہرہ مزید کھل کر عیاں ہوگیا۔ جنہوں نے چیئرمین سینیٹ کے لیے موجودہ چیئرمین رضا ربانی کی نامزدگی پر کھل کر اعتراض کردیا ہے۔ اس بارے میں پی پی پی کے رہنماء تاج حیدر کا کہنا ہے کہ: ’’حتمی فیصلہ چوں کہ پارٹی قیادت کا ہوتا ہے اس لیے اسے تسلیم کرنا چاہیے چوں کہ رضا ربانی اپنی رائے کو اہمیت دیا کرتے تھے پارٹی رہنما کی بات کو نظر انداز کیا کرتے ہیں اس لیے قیادت اس بار انہیں چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد نہیں کرنا چاہتی‘‘۔
فرحت اللہ بابر کی کھری باتوں اور رضا ربانی کی رائے کی مخالفت پر پارٹی سطح پر کیے جانے والے ان فیصلوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہلانے والی پیپلزپارٹی میں آمرانہ ذہنیت غالب ہے۔ جہاں سینئر رہنماؤں کی بات کو ایک ڈکٹیٹر کے طرز عمل کے طور پر نظرانداز کرکے مرکزی رہنما اپنے فیصلوں کو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امرانہ ذہنیت کے حامل رہنما کس طرح جمہوریت پسند ہوسکتے ہیں۔
اپنے آپ کو سیاست کے چمپئن کہنے والے آصف زرداری اس بار خود ہی اپنے جال میں پھنستے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے مسلم لیگ کے نااہل صدر نواز شریف کی جانب سے پیپلز پارٹی کو دی گئی یہ پیشکش کہ اگر رضا ربانی کا نام چیئرمین سینیٹ کے لیے دیا جائے تو مسلم لیگ نواز پیپلزپارٹی کے امیدوار کی حمایت کرے گی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ نواز شریف سیاسی طور پر اب بھی چالاکی کا اظہار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کو یہ یقین تھا کہ آصف زرداری کبھی بھی میاں رضا ربانی کے حوالے سے میاں صاحب کی پیش کش قبول نہیں کریں گے اس لیے انہوں نے میڈیا کے ذریعے یہ پیش کش کرکے سیاست کے ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کو بند گلی میں پہنچانے کی کوشش کی۔
پیپلز پارٹی نے سینیٹ کے انتخابات کے لیے بلوچستان اور سندھ میں جو ہارس ٹریڈنگ کی اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑیں گے شاید کسی کو اس بات کا شبہ تک نہ تھا لیکن اب جب فاٹا اور بلوچستان سے کامیاب ہونے والے آزاد سینیٹرز نے واضح کردیا ہے کہ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے لیے ہم اس پارٹی کے نامزد امیدوار کی حمایت کریں گے جو ہمارے مطالبات پورے کرے گی۔ جب کہ مسلم لیگ نواز کی پہلے ہی سے حمایتی جے یو آئی ایف اور دیگر جماعتوں اور پیپلز پارٹی کی مخالف پارٹیوں کی طرف سے پی پی پی کے نامزد امیدوار کو ووٹ دینا ممکن نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ ملک کی سیاست میں اب تک وفاق میں حکمرانی کرنے والی جماعت کے نامزد امیدواروں کو کامیاب کرانے کی روایت برقرار ہے۔ اس لیے لگتا یہ ہے کہ نہ صرف سینیٹ کے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں پی پی پی کو ناکامی ہوگی بلکہ آئندہ عام انتخابات میں بھی اسے توقعات کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی کی سیٹیں مل سکیں گی۔