عمران خان کی سخاوت یا ۔۔۔؟

395

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اپنے اس عزم پر قائم ہیں کہ سینیٹ کے چیئرمین کے لیے نہ تو مسلم لیگ ن سے ہاتھ ملائیں گے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کی حمایت کریں گے۔ لیکن گزشتہ جمعرات کو انہوں نے اپنی پارٹی کے 13ووٹ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے حوالے کردیے۔ انہوں نے بلوچستان ہاؤس میں و زیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور آزاد سینیٹرز سے ملاقات میں 13 سینیٹروں کا عطیہ پیش کیا۔ لیکن ابھی تو خیبرپختونخوا میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی تحقیقات ہونی ہے جس کے لیے عمران خان نے کمیٹی بنا دی ہے۔ اپنے سینیٹرز کو کسی اور کے حوالے کرنا ایسا ہے جیسے بھیڑ بکریاں کسی کو سونپ دی جائیں۔ کیا اسے بھی ہارس ٹریڈنگ نہیں کہا جاسکتا جس میں پورا گلہ ہی دوسرے کے حوالے کردیا گیا۔ بہرحال، یہ معاملہ پی ٹی آئی کے سینیٹروں کا ہے کہ وہ اس فیصلے سے اتفاق کریں یا مخالفت کریں۔ عمران خان نے روحانی اشارے پر یہ فیصلہ کیا ہوگا۔ لیکن اعتراض کرنے والے اسے عمران خان کی چال قرار دے رہے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کی براہ راست حمایت کرنے کے بجائے اب دوسرے راستے سے آئے ہیں۔ اب یہ 13ووٹ عبدالقدوس بزنجو کے ہوئے اور اگر انہوں نے پیپلز پارٹی کی حمایت کرتے ہوئے یہ ووٹ زرداری کو سونپ دیے تب کیا ہوگا؟ ایسا ہو بھی گیا ہے۔ آصف علی زرداری بلوچستان کے سینیٹروں کو پرچانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس صوبے میں حکومت کی تبدیلی میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے ووٹ زرداری کی جھولی میں ڈال دیے گئے تو کیا عمران خان ایک بار پھر حسب عادت یوٹرن لے لیں گے؟ مبصرین کا خیال ہے کہ ن لیگ کے چیئرمین کا راستہ روکنے کے لیے عمران خان کچھ بھی کرسکتے ہیں اور کسی سے بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ خود پی ٹی آئی تو 13 ووٹروں کے بل پر چیئرمین کا انتخاب نہیں لڑ سکتی۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ بلوچستان سے ہونا چاہیے۔ یہ اچھی بات ہے کہ سینیٹ چیئرمین کسی چھوٹے صوبے بلوچستان یا خیبرپختونخوا سے ہو۔ اس طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ میں توازن رہے گا۔ بلوچستان میں نو منتخب سینیٹرز میں 6آزاد، نیشنل پارٹی کے دو، پختونخواملی عوامی پارٹی کے دو اور جمعیت علما اسلام کا ایک رکن ہے۔ حکمران لیگ بھی بلوچستان میں اپنی سی کررہی ہے۔ جے یوآئی نے دونوں کو آسرا دیاہوا ہے۔ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے سینیٹروں پر بھی ڈورے ڈال رہی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے وفد نے ایم کیو ایم کے ایک دھڑے، بہادر آباد گروپ کے عارضی مرکز پر حاضری دی اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور اس دھڑے کے دیگر ارکان سے ملاقات کی۔ وفد میں شامل نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ اگلی ملاقات نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ تاہم یہ ملاقات بھی بے نتیجہ نہیں رہی اور ڈاکٹر خالد مقبول نے پیپلز پارٹی کو یاد دلایا کہ ایم کیو ایم نے ماضی میں بھی پیپلز پارٹی کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ یعنی وہ اس بار بھی خوش کردیں گے۔ ایم کیو ایم کے ووٹ اسی پارٹی کو جانے چاہییں جس نے خریدے ہیں۔ خالد مقبول کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ایم کیو ایم نے ماضی میں بھی پیپلز پارٹی کو مایوس نہیں کیا اور اس نے جب چاہا کان سے پکڑ کر ایم کیو ایم کو اپنی حکومت میں شامل کرلیا، اس وقت بھی جب یہ کہا گیا کہ پیپلز پارٹی نے ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے۔ خنجروں کے زخم جلدی جلدی بھرتے گئے اور پیپلز پارٹی کی حکومت میں ایم کیو ایم کا آنا جانا لگا رہا۔ جب لندن سے حکم آیا باہر آگئے اور جب حلالہ کا حکم ہوا تو سر جھکا کر واپس چلے گئے۔ لیکن خالد مقبول کی آمادگی پر دوسرے دھڑے، پی آئی بی کے سربراہ فاروق ستار بری طرح بھڑک اٹھے ہیں اور بہادر آباد گروپ کو دھمکیاں دے ڈالی ہیں ۔ لیکن ایم کیو ایم کی دھمکیاں اس وقت تک موثر تھیں جب تک الطاف حسین کا پروردہ خطرناک ٹولہ متحرک تھا۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کی طرف سے گورنر سندھ نے رابطہ کمیٹی سے جمعہ کو ملاقات کرنے کا اعلان کردیا اور توقع ظاہر کی کہ ایم کیو ایم اور ن لیگ میں اتحاد ہو جائے گا۔ لیکن کون سی ایم کیو ایم سے ؟ کیا ایک بار پھر ایم کیو ایم کی دھڑے بندی نمایاں ہوگی یعنی کوئی پیپلزپارٹی کے ساتھ اور کوئی ن لیگ کی گود میں۔ سینیٹ کے لیے تو خریداری کروڑوں تک پہنچی تھی، چیئرمین کے انتخاب کے لیے بوریوں کے منہ کھل سکتے ہیں اور پھر شور مچے گا کہ ہارس ٹریڈنگ بہت شرمناک ہے۔ صرف دو دن بعد سب کچھ سامنے آجائے گا۔