امریکا کے لیے نئے سفیر کا اعلان

467

اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے کاروباری شریک اور معاون علی جہانگیر صدیقی کو امریکا میں پاکستان کا سفیر متعین کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گو کہ ابھی تک سرکاری طور پر اس فیصلے کا اعلان نہیں ہوا اور سفارتی آداب کے مطابق اس وقت تک اعلان بھی نہیں کیا جائے گا جب تک امریکا سے منظوری نہ آجائے۔ علی جہانگیر صدیقی کا کوئی سفارتی تجربہ نہیں ہے اور ان کی صرف ایک خوبی ہے کہ وہ ایک تاجر ہیں اور وزیر اعظم کے کاروباری شریک۔ ان کو امریکا جیسے ملک میں سفیر بنانے کے لیے وزیر اعظم سے تعلق ہی کافی ہے۔ جناب شاہد خاقان عباسی نئے انتخابات کے بعد وزیر اعظم رہتے ہیں یا نہیں چنانچہ جلدی جلدی اپنے کاروباری شریکوں اور دوستوں کو نواز ڈالیں، پھر التفات دوستاں رہے نہ رہے۔ علی جہانگیر اپنے والد جہانگیر صدیقی کی تعمیر کردہ کاروباری ریاست کے وارث ہیں ۔ ان کو امریکا میں موجودہ سفیر اعزاز چودھری کی جگہ لایا جارہا ہے جن کو وزارت خارجہ کا طویل تجربہ رہا ہے اور انہیں مارچ 2017ء میں تین سال کے لیے سفیر بنایا گیا تھا۔ یہ مدت پوری ہونے میں ابھی دو سال باقی ہیں لیکن لیگی حکومت نے اچانک اپنا ذہن بدل لیا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ شاہد خاقان عباسی ان کے ذریعے اپنا کاروبار امریکا تک پھیلا سکتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کی ائر لائن ائر بلو میں بھی صدیقی گروپ کے حصص ہیں اور علی جہانگیر ایک ڈائریکٹر ہیں۔ علی جہانگیر کی پشت پر ایک مضبوط میڈیا گروپ بھی ہے۔ جہاں تک سفارتی تجربے کا تعلق ہے وہ علی جہانگیر کو آہستہ آہستہ حاصل ہو ہی جائے گا۔ ویسے بھی حسین حقانی کو کون سا سفارتی تجربہ تھا جن کو میاں نوازش ریف نے سری لنکا کا سفیر بنایا اور پھر امریکا کی خواہش پر صدر زرداری نے اہم ترین ملک کاسفیر بنا دیاانہوں نے کھل کر امریکا کی خدمت کی۔ عابدہ حسین بھی سفیر رہی ہیں لیکن ان کا ایک مضبوط سیاسی پس منظر تھا۔ نواز شریف نے ایک صحافی عطاء الحق قاسمی کو بھی سفیر بنا دیا تھا۔ سفیر بنانے کے لیے کیریئر ڈپلومیٹ یا منجھے ہوئے سیاست دان کی شرط کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا اور عام طور پر یا تو حکمران اپنی پسند سے کسی کو سفیر بنا دیتے ہیں یا جرنیلوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کو عسکری تجربہ تو ہوتا ہوگا، سفارت کاری کا علم نہیں ہوتا اور وہ یہ کام بھی فوجی انداز میں کرتے رہے ہیں۔ اس وقت امریکا اور پاکستان کے تعلقات ہر سطح پر کشیدہ ہیں ۔ ایسے میں یا تو کسی معقول سیاست دان کو بھیجنا چاہیے تھا یا وزارت خارجہ سے کسی کا انتخاب کیا جاتا۔ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال میں اعزاز چودھری نے اس ضمن میں کیا کارکردگی دکھائی؟ تعلقات بگڑتے ہی چلے گئے۔ جنوبی ایشیا اور افغانستان کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسی میں شدت ہی آتی گئی اور حکومت پاکستان بے بسی سے دیکھتی رہی۔ اس وقت خود حکومت پاکستان عبوری دور سے گزر رہی ہے۔ ایسے میں کسی کو خوش کرنے کے لیے نئے تجربات نہیں کرنے چاہییں۔ مناسب تھا کہ امریکا کے لیے سفیر کا فیصلہ نئی حکومت پر چھوڑ دیا جاتا۔ اگر کسی تاجر ہی کو سفیر بنا کر امریکابھیجنا ہے تو پاکستان میں اور بھی کئی بڑے تاجر پڑے ہوئے ہیں۔ علی جہانگیر سرمایہ کاری کے لیے وزیر اعظم کے خصوصی مشیر ہیں اور ان کا عہدہ وزیر مملکت کے برابر ہے۔ شاہد خاقان یہ ضرور بتائیں کہ سرمایہ کاری میں علی جہانگیر کی اب تک کیا خدمات ہیں؟