خلافت کی بحالی‘ شب تاریک میں سحر کی باتیں

395

پتا نہیں سعودی ولی عہد شکایت کررہے ہیں یا اطلاع دے رہے ہیں لیکن اس اطلاع یا شکایت سے امت مسلمہ کا خون سیروں بڑھ گیا ہے۔ محمد بن سلمان کے حوالے سے ایک مصری اخبار الشروق نے خبر دی ہے کہ انہوں نے ترکی کو بدی کے مثلث کا حصہ قرار دیا اور الزام لگایا ہے کہ ترکی خلافت عثمانیہ کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی قطر کا اتحادی ہے اور حالیہ مہینوں میں اس نے ایران کے ساتھ مل کر بھی کام کیا ہے۔ شہزادہ محمد آج کل برطانیہ کے دورے پر ہیں اس لیے ممکن ہے برطانوی ملکہ کو ڈرانے کے لیے کہا ہو کہ خلافت عثمانیہ بحال ہورہی ہے۔ رفتہ رفتہ ترکی اور سعودی عرب دو قطب بنتے جارہے ہیں بلکہ اگر یمن، شام، عراق اور فلسطین کے معاملات دیکھیں تو سعودی عرب کا قطبی کردار پہلے کی نسبت خاصا کمزور ہوگیا ہے۔ بہر حال سعودی عرب کے طاقتور ولی عہد نے جو کچھ کہا ہے ضروری نہیں اس سے مکمل اتفاق کیا جائے لیکن بعض باتیں ایسی ہیں جو تاریخ اور حقائق کے منافی ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا یہ کہنا کہ قطر کی حیثیت مصر کی ایک سڑک جتنی ہے، نہایت نامناسب بات ہے، کئی عرب ممالک سے چھوٹا ملک اسرائیل پوری عرب اور مسلم دنیا کی ناک میں دم کیے بیٹھا ہے۔ جب چاہتا ہے جس ملک کے ساتھ چاہتا ہے زیادتی کر ڈالتا ہے اور سارے عرب ممالک مل کر بھی اس چھوٹے سے ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ طاقتور حکمران کی ناک میں مچھر گھس جائے تو اس کی موت تک نہیں نکالا جاسکتا۔ لہٰذا کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا اور قرآن پڑھیں تو اس میں تو واضح پیغام ہے کہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ قلیل گروہ اللہ کے حکم سے کثیر گروہ پر غالب آگیا۔ تو کیا چھوٹا سا قطر طاقتور ممالک کے لیے مسئلہ نہیں بن سکتا۔ ویسے بھی اپنے برادر مسلم ملک کی تحقیر مناسب نہیں تھا۔
جہاں تک بدی کے مثلث کا تعلق سے تو سعودی عرب اور ترکی کئی امور میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرچکے ہیں۔ سعودی عرب ایران کے ساتھ بھی تعاون کرچکا ہے اور قطر تو اس کا بچہ سمجھا جاتا تھا۔ اصل خرابی تو یہ ہے کہ بدی کے مسلمہ مرکز امریکا و اسرائیل کو فائدہ پہنچانے والا کون سا کام کیا جائے۔ امت مسلمہ اور اس کے لیڈروں کو اس حوالے سے اپنی ذمے داریوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ جہاں تک خلاف کی بحالی کے الزام یا شکوے کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ تو یہی چاہتی ہے، ترک صدر یہ چاہتے ہیں یا نہیں، اس کے لیے سنجیدہ کوششیں کررہے ہیں یا محض اشاروں کنایوں میں باتیں کرکے اپنی قوت میں اضافہ کررہے ہیں، لیکن خلافت اسلامیہ کی بحالی کے حوالے سے جتنی باتیں کی جائیں گی امت مسلمہ میں اس حوالے سے اتنی ہی اُمیدیں بندھیں گی۔ اب اگر ترک صدر اردوان خلافت کی بحالی کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہیں کریں گے تو ان سے ان کے عوام خود پوچھ لیں گے۔ یہ بہت اہم معاملہ ہے، ترک عوام نے دو سال قبل ٹینکوں اور جرنیلوں کا مقابلہ صرف اس لیے کیا تھا کہ ان کو خلافت کا احیا نظر آرہا تھا۔ پھر جو لوگ ٹینکوں اور جرنیلوں سے لڑ سکتے ہیں کل خلافت کا احیا نہ ہوا تو وہ اردوان سے بھی لڑسکتے ہیں۔ یہ بات یوں ہی ہوا میں نہیں کہی جارہی بلکہ اس کے پیچھے تاریخی حقائق ہیں۔ افغانستان سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے افغان مجاہدین کھڑے ہوئے انہوں نے اس کے قدم روک دیے تو امریکا کود پڑا اور نئے نئے جہادی تیار کرکے سہرا اپنے سر ڈال لیا۔ پھر وہی ہوا جو ایسے سہروں کا ہوتا ہے درجنوں جہادیوں کے مزید گروپ بنے ان کے انڈے بچوں نے مزید گروپ پیدا کیے، اب ان کو ختم کرنے پر عالمی سرمایہ ضائع کیا جارہا ہے۔ تو آج اس عرب اتحاد کے مستقبل پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو بدی کے مثلث کے خلاف کھڑا ہوا ہے۔ بدی کا یہ مثلث تو کسی وقت 34 ملکی اتحاد کا حصہ بھی بن سکتا ہے لیکن یہ جو فوج کھڑی ہوئی ہے اسے کون قابو میں رکھے گا۔
لیکن مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ سعودی ولی عہد نے ترکی پر جو الزام عائد کیا ہے وہ برطانیہ میں ان کے لیے عارضی فائدہ مند ہوسکتا ہے لیکن پوری امت میں ترکی کے حوالے سے امیدیں بڑھ جائیں گی۔ اسے عام طور پر منفی مہم یا بیک فائر کرنے والا گولہ کہتے ہیں۔ اس کا ترکی کو یا اس کے صدر کو نقصان نہیں ہوگا۔ ترکی کے حوالے سے مغرب کا جو رویہ ہے وہ پہلے بھی وہی تھا جو اس الزام کے بعد ہوگا۔ مغرب تو شہزادہ محمد بن سلمان کے حوالے سے بھی بہت سے عزائم رکھتا ہے
لیکن کیا شہزادے کو یہ معلوم ہے کہ ایک سو سال قبل جب خلافت عثمانیہ ختم کی گئی تھی تو خود کو وسیع النظر کہنے والوں نے سو سال کے لیے خلافت ختم کی تھی۔ خلیفہ کے اختیارات سلب کیے تھے لیکن یہ بھول گئے کہ قوموں کی تاریخ میں سو سال کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ چناں چہ سو سال گزر گئے اب پورا مغرب اس بات سے خوفزدہ ہے کہ کہیں خلافت کا یہ ادارہ بحال نہ ہوجائے، اس پر وہ اُلٹے سیدھے الزامات اور مہمات چلا رہا ہے۔ اور ہم بھی یعنی مسلمان ممالک کے عوام اور حکمران بھی ان مہمات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ تو اگلے چار پانچ برس میں معلوم ہوگا کہ اردوان خلافت عثمانیہ کی بحالی کے لیے کوشش کررہے ہیں یا ان کے عزائم بھی کچھ اور ہیں جیسا کہ ان کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ یہ تاحیات صدر بننے اور تاحیات آمریت کے راستے پر چل رہے ہیں۔ آج کل جمہوری حکومت کا پیمانہ ہے کہ عوام خوشحال ہوں، ترقی ہو، انصاف ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اور قرآن کہتا ہے کہ اگر یتیم آئے تو اس پر ظلم نہ کرو۔ سائل آئے تو اس کو نہ جھڑکو اور جو نعمتیں ملی ہیں ان کا ذکر کرو۔ انصاف کرو کیوں کہ یہ تقویٰ سے قریب ہے۔ قرآن کے مطابق فیصلے کرو۔ تو اس کا فیصلہ بھی اس وقت ہوگا جب ترکی میں فیصلے ہورہے ہوں گے۔ اگر قرآن کے مطابق فیصلے ہورہے ہوں تو اس سے ڈرنا اور ڈرانا کیا۔ پھر تو استقبال ہی کرنا ہوگا۔