پیپلز پارٹی میں جمہوریت کا چرغ کب ہوگا؟ 

316

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے فوجی طالع آزماؤں کے دور میں ملک میں جمہوریت کی بحالی اور جمہوریت کی بقا کے لیے گراں قدر جدوجہد کی ہے لیکن یہ پارٹی ابھی تک خود اپنے اندر جمہوری قدروں کو نہیں چھو سکی ہے۔ تازہ تریں ثبوت خود پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے، سینیٹ کے چیرمین رضا ربانی کو دوبارہ انتخاب کے میدان سے خارج کر کے دیا ہے۔ یہ ان کا اپنا فیصلہ کہا جاتا ہے کیوں کہ اس مسئلے پر پارٹی میں کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ وڈیرے کی طرح ان کا بس یہ کہنا تھا کہ میں نہیں چاہتا (رضا ربانی دوبارہ منتخب ہوں)۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے فیصلہ کے بارے میں جو وضاحت کی وہ بڑی مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔ آصف علی زرداری نے شکایت کی ہے کہ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بارے میں رضا ربانی نے پارٹی کے اعتراضات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ شاید زرداری یہ بھول گئے کہ اٹھارویں ترمیم قومی اسمبلی نے 8 اپریل 2010 کو منظور کی تھی اور سینیٹ نے سات روز بعد 15 اپریل کو منظور کی تھی۔ اور خود زرداری نے جو اس وقت صدر تھے اس ترمیم پر دستخط کیے تھے۔ اُس وقت رضا ربانی سینیٹ کے چیرمین نہیں تھے، محض ایک رکن تھے۔ سینیٹ کے چیرمین کے عہدے پر ان کا انتخاب مارچ 2015 میں ہوا تھا۔ اگر بقول زرداری اٹھارویں ترمیم کے سلسلے میں پارٹی کو اعتراضات تھے تو پارٹی قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل پر ان کا مداوا کر سکتی تھی۔ اب آٹھ سال بعد جب دریائے سندھ میں اتنا پانی بہہ گیا، اس بارے میں زرداری کا شکوہ اور اس کا الزام رضا ربانی پر تھوپنا دانش مندانہ نظر نہیں آتا۔ یہ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی میں کوئی جمہوری عمل رائج نہیں۔ اپنی پارٹی کے چیرمین سینیٹ کے خلاف سرے عام الزام تراشی کسی طور جمہوری نہیں کہی جا سکتی۔ اگر رضا ربانی سے پارٹی کے مفادات کے خلاف عمل کرنے کی شکایت تھی تو پارٹی کی کور کمیٹی میں (اگر کور کمیٹی با اختیار ہے) اس پر بحث ہونی چاہیے تھی اور رضا ربانی کی سر زنش ہونی چاہیے تھی۔ انہیں غالباً احساس نہیں کہ انہوں نے رضا ربانی کے نام کو القط کر کے ایک تجربہ کار پارلیمانی دیو قامت شخصیت کو گنوا دیا ہے جو 1993 سے سینیٹ کے چھ بار رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ اور 1997 میں بے نظیر بھٹو نے انہیں پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز کیا تھا۔ پھر سینیٹ کے چیرمین کی حیثیت سے انہوں نے ایوان میں تمام جماعتوں کا ایسا بھر پور اعتماد حاصل کیا تھا کہ جس کی مثال نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ سوائے زرداری کے دوسری تقریباً تمام جماعتیں بشمول مسلم لیگ ن انہیں دوبارہ چیرمین منتخب کرنے کے لیے پرجوش تھیں، ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ زرداری کی ان کا نام رد کرنے میں کیا مصلحت پوشیدہ ہے۔
ایسے ہی وڈیرا شاہی انداز سے زرداری نے اپنے نہایت قابل اعتماد اور تجربہ کار سینیٹ کے سابق رکن فرحت اللہ بابر کو اچانک اپنے ترجمان کے عہدے سے برطرف کردیا۔ گو کوئی وضاحت نہیں کی گئی لیکن کہا جاتا ہے کہ زرداری، سینیٹ میں فرحت اللہ بابر کی الوداعی تقریر پر سخت ناراض ہیں، جس میں انہوں نے شکایت کی تھی کہ پارلیمنٹ کے اختیارات پر دوسرے اداروں نے شب خون مارا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے بیکانہ انداز سے کہا تھا کہ جب چیف جسٹس قسم کھا کے کہتے ہیں کہ میرا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تو انہیں تشویش ہوتی ہے۔ اور انہیں تشویش ہوتی ہے جب جج صاحبان اپنے وقار کے لیے توہین عدالت کا سہارا لیتے ہیں۔ اور آئین اور قانون کی جگہ اشعار کوٹ کرتے ہیں۔
ابھی تک سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ یہ نہیں سمجھ سکے ہیں کہ زرداری کو اس تقریر پر کیوں اعتراض ہے۔ یہ تو فوج کے بارے میں زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی تقریر سے بہت ملائم ہے اور مدلل تقریر ہے جو بڑی حد تک عوام کی رائے کی ترجمانی کرتی ہے۔
ہر جمہوری پارٹی کی یہ شان ہوتی ہے کہ اس کے اراکین کو پارٹی کے سربراہ کے فیصلوں سے اختلاف کا حق ہوتا ہے۔ اور یہی باہمی مشاورت ایک مضبوط جمہوری روایت ہے۔ ہمارے سامنے قائد اعظم کی مثال شمع راہ ہے جن کے فیصلوں پر حسرت موہانی اور بنگال کے ممتاز رہنما ابوالہاشم نے کھل کر اختلاف کیا لیکن قائد نے ان کی رائے قیمتی مشورہ کی طرح تحمل سے سنی۔ قائد اعظم جمہوری اقدار پر ایمان رکھنے والے قائد تھے جنہوں نے مسلم لیگ کو ایک حقیقی جمہوری پارٹی کے طور پر فروغ دیا اور یہی ان کی ایک بڑی طاقت تھی۔
بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی جو ملک کی ایک بڑی پارٹی ہے کسی طور سے جمہوری کہلانے کی حقدار نہیں ہے۔ پارٹی کو قائم ہوئے نصف صدی گزر گئی لیکن اب تک ایک بار بھی اس کی قیادت کا انتخاب نہیں ہوا اور نہ پارٹی کے دوسرے عہدیداروں کا۔ یہ صحیح ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو پارٹی کے بانی تھے اور ان کے ساتھیوں نے انہیں دل و جان سے پارٹی کا سربراہ قبول کیا تھا۔ لیکن ان کے بعد پارٹی کی سربراہ کی حیثیت سے بیگم نصرت بھٹو کا کوئی انتخاب نہیں ہوا۔ اور نہ ان کے بعد بے نظیر بھٹوکسی انتخابی عمل سے گزریں۔
دنیا کی سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی واحد مضحکہ خیز پارٹی ہے کہ جس کا سربراہ وصیت کے مطابق مقرر ہوا ہے۔ اس وصیت کی پارٹی کے مقتدر رہنماؤں نے دور سے بس ایک جھلک دیکھی تھی۔ ان میں سے کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ وصیت کو غور سے پڑھ سکیں۔ بلا شبہ یہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد نہایت جذباتی دور تھا لیکن جمہوری پارٹی کے لیے لازم تھا کہ کچھ توقف کے بعد جمہوری انداز سے پارٹی کے سربراہ اوردوسرے عہدے داروں کے انتخابات عمل میں آتے، جن میں پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو حصہ لینے کا موقع ملتا اور دراصل جمہوری عمل ہی سے کارکنوں کو قوت حاصل ہوتی ہے اور ان کی اپنی قیادت کے تئیں وفا داری کو فروغ ملتا ہے۔
1963 میں جب پنڈت جواہر لعل نہرو کا انتقال ہوا تو میں دلی میں تھا۔ وہ وقت بھی جب کہ ہندوستان، چین کے ساتھ جنگ میں خفت آمیز کاری شکست کھا کر ابھی سنبھلا بھی نہیں تھا، کانگریس کے رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے بے حد جذباتی تھا، گو ان کی صاحب زادی اندرا گاندھی کو ان کا جانشین تصور کیا جاتا تھا لیکن اس بارے میں نہرو کی کوئی وصیت نہیں تھی بلکہ کانگرس کے صدر کامراج کو یہ فرض سونپا گیا کہ وہ نہرو کے جانشین کا انتخاب، کانگریس کے تمام اراکین پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے ارکان سے صلاح مشورہ کر کے اتفاق رائے سے کریں۔ جس کے نتیجے میں لال بہادر شاستری وزیر اعظم منتخب ہوئے ان کے حریف مرار جی ڈیسائی نے بڑے تحمل سے پارٹی کا جمہوری فیصلہ قبول کیا۔
بلا شبہ پاکستان میں سوائے جماعت اسلامی کے تقریباً سب جماعتوں میں جاگیردارانہ موروثی نظام ہے۔ اکا دکا کسی جماعت میں انتخابات ہوتے بھی ہیں تو وہ محض دکھاوے کے ہوتے ہیں۔ اوپر قیادت ڈاٹ کی طرح ایسی جمی رہتی ہے کہ نیچے سے کسی کارکن کو انتخابی سیڑھیاں طے کر کے اوپر جانے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ صد حیف پاکستان پیپلز پارٹی میں تو وصیتی قیادت کا مقابلہ کرنے یا اسے للکارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو صحیح معنوں میں عوامی جمہوری پارٹی بننے اور عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے مسائل حل کرنے کے لیے جماعتی انتخابات اور جمہوری عمل بے حد ضروری ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1967 میں بھٹو صاحب جب لندن میں پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالنے کے جتن کررہے تھے تو ان سے طویل ملاقاتیں رہتی تھیں اس وقت اس پارٹی کا ان کا جو وژن تھا اور پاکستان میں عوامی انقلاب کا ان کا جو عزم تھا اس میں وہ بنیادی طور پر اپنے جاگیردارانہ مزاج کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔ انہیں عوام سے بھی شکایت تھی۔ جولائی 1973 میں جب بھٹو صاحب سے لندن میں آخری ملاقات ہوئی تھی تو میں نے ان سے شکایت کی تھی کہ آپ نے پیپلز پارٹی ایک بیوروکریٹ وقار احمد کے حوالے کردی ہے تو سخت ناراض ہوئے اور کہنے لگے میں کیا کروں میں عوام کو اپنے مسائل کے بارے میں کھل کر بات کرنے کا موقع دینے کے لیے عوامی کچہریاں لگاتے لگاتے تھک گیا لیکن لوگ اپنے علاقوں کی ترقی، اسکولوں، اسپتالوں کے قیام اور روزگار کے منصوبوں کے بجائے اپنی ذاتی چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ کر رہ جاتے تھے۔ مجھے اس زمانہ میں محسوس ہوتا تھا کہ بھٹو صاحب بے حد کرب میں مبتلا ہیں اور وہ اپنی پارٹی کے مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ پر امید نہیں تھے۔ اور اب بھی پیپلز پارٹی کا مستقبل کوئی امید افزا نہیں ہے۔ پنجاب جو ایک زمانہ میں پیپلز پارٹی کا مضبوط قلعہ تھا وہ مسمار ہو چکا ہے، خیبر پختوں خوا میں اسے قدم رکھنے کی جگہ ملنی مشکل ہے۔ ویسے زرداری بلوچستان میں گٹھ جوڑ کر کے اپنی کامیابی پر بہت خوش ہیں۔ بس لے دے کر سندھ رہ گیا ہے جہاں پرانے وفادار وڈیروں کی وجہ سے پارٹی کا بھرم باقی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ایک مقبول عوامی جماعت کی حیثیت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کی پارٹی میں جمہورت طلوع ہو۔ لیکن یہ کب طلوع ہوگی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔