عوام کس پر ترس کھائیں

140

جرمنی کی لا فرم موساک فونسکاکاسے سال 2016 کولیک ہونے پاناما پیپرز نے آتے ساتھ ہی پوری دینا کی سیاست میں طوفان مچا دیا۔ ظاہری طور پر اس طوفان نے سب سے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچایا جو اب تک اس کی زد میں ہے۔
تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم، نواز شریف کے پیچھے پاناما کا جن پڑا تو ایسا پڑا ان کو، ان کی اہلیہ کو لندن کے ہسپتال تک پہنچا کر بھی سکون سے نہ بیٹھا۔ ایک بار پارٹی کی صدارت سے ’’نااہل‘‘ کرانا اس کے لیے کافی نہ تھا کہ دوسری بار بھی اسی ذلت کی بھینٹ چڑھا بیٹھا اور اس دوران، عوام ایسی کشمکش میں رہے کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ ترس وہ اپنے آپ پہ ہونے والے ظلم پہ کھائیں یا اس پہ جو نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے؟
حال میں آنے والا عدالت عظمیٰ کا فیصلہ، جو اسمبلی سے منظور ہونے والی قرارداد کو کالعدم قرار دیتا ہے، نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک طرف تو عوام خوش ہیں کہ ملک میں اربوں کی کرپشن کرنے والا شخص آئندہ کبھی کسی سیاسی جماعت کی سربراہی نہ کر سکے گا، پر دوسری جانب، عدلیہ کو اس طرح عوام کے ایوانوں میں منتخب کردہ نمائندوں کی قانون سازی اس طرح رد کرنا ملک میں جمہوریت کو درپیش خطرہ اور اداروں کے درمیان محاذ آرائی مزید فروغ دیتی ہے۔ایک ایسا ملک، جس کو بنے ابھی صرف 71 سال ہوئے ہیں، وہاں کے سیاستدانوں، اداروں سے لے کر عام عوام کی سب سے اولین ترجیح، آپس کی محاذ آرائی سے ہٹ کر ملک و قوم کی ترقی ہونی چاہیے۔
عروسہ جدون
Uroosa2050@gmail.com