پہلے لوگ یا تو قومی تہوار مناتے تھے جیسے یوم آزادی، 23 مارچ، یوم دفاع، یوم اقبال، یوم قائد اعظم وغیرہ یا پھر اسلامی تہوار جیسے عیدالفطر اور عیدالاضحی، لیکن اب تو لگتا ہے کہ سال کے تمام دن کسی نہ کسی نام سے منائے جاتے ہیں کبھی ماؤں کا عالمی دن، کبھی باپ کا، کبھی بچوں کا تو کبھی اساتذہ کا، کبھی بہن بھائیوں کا تو کبھی دوستوں اور شوہر کا۔ خیر ہر دن ہی کسی نہ کسی نام سے موسوم ہے، ایسے تمام دنوں کو منانے والے لوگ ماڈرن اور نہ منانے والے لوگ دقیانوس کہلاتے ہیں، ویسے مذکورہ بالا تمام رشتے ہمارے لیے اہم بھی ہیں اور قابل احترام بھی۔ ویسے یہ تمام دن کو کسی نہ کسی طرح ہضم ہو ہی جاتے ہیں، ویسے ماہِ فروری میں محبت کرنے والوں کا دن ویلنٹائن ڈے کے نام سے منایا جانے لگا ہے اور نوجوان نہ صرف جوش و خروش سے مناتے ہیں بلکہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ ہم تو اپنے والدین، بہن بھائی اور دوستوں سے بھی تو محبت کا اظہار کرسکتے ہیں۔ ارے بھئی آپ ان کے دن تو ان کے ناموں سے پہلے منارہے ہیں پھر اس دن لال گلاب ہاتھ میں لیے محبت کا اظہار کس سے کرنے جارہے ہیں؟۔ ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا یہ تو قومی تہوار ہے اور نہ اسلامی، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ غیر اسلامی رسم ہے، یہ دن جس قوم کی پیداوار ہے وہ بھی شاید اب اس دن کا اتنا اہتمام نہ کرتے ہوں گے، پر ہم تو ترقی یافتہ قوم ہیں اپنے محرم رشتوں سے محبت کے اظہار کے لیے کسی دن، وقت، تاریخ، ماہ و سال کی ضرورت نہیں ہے، وہ ہر لمحہ ہمارے لیے اہم ہیں، اس دن کو مناتے ہوئے سرکارِ دو عالمؐ کی اس تنبیہہ کو ضرور یاد کریں کہ ’’جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا روزِ محشر وہ ان ہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا‘‘۔ ارے! ہم تو اس نبیؐ کی اُمت ہیں جنہوں نے روزے جیسے فریضے میں بھی یہودیوں کی مشابہت اختیار نہیں کی اور فرمایا کہ ’’اگر وہ عاشورہ کا ایک روزہ رکھتے ہیں ہم آئندہ سال دو روزے رکھیں گے‘‘ ہمارے مذہب نے تو ان کے طور طریقے اپنانے سے روکا ہے۔ لال گفٹ اور پھولوں سے سجی ہوئی دکانیں ضرور ہمیں اپنی طرف متوجہ کریں گی لیکن ایک مسلمان غیر مسلمانوں کی کسی چیز سے متاثر نہیں ہوتا۔
زرنگار، کراچی