پیسہ پھینک تماشا دیکھ

389

مولانا ابوالکلام آزادؒ نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، پاکستانی سیاست کے ماہرین کہتے ہیں کہ سیاست میں مستقل دوستی یا دشمنی نہیں ہوتی۔ آج کا دوست کل کا دشمن اور کل کا دشمن آج کا دوست بھی بن سکتا ہے۔ اسی طرح سیاسی وفاداری بھی کوئی پائدار چیز نہیں ہے یہ بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے۔ دور کیوں جائیے جو لوگ کل تک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دست و بازو بنے ہوئے تھے وہ آج میاں نواز شریف کی معیت میں جمہوریت اور ووٹ کے تقدس کا راگ الاپ رہے ہیں اور دھڑلے سے عدلیہ کی توہین کررہے ہیں۔ عمران خان نے اپنی سیاست کا آغاز کرپشن کے خلاف جہاد سے کیا تھا، وہ کرپشن سے پاک ’’نیا پاکستان‘‘ بنانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے جس طرح کرپٹ اور بدنام لوگوں کو اپنی پارٹی میں جگہ دی ہے اس سے محب وطن عناصر کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ اگر خدانخواستہ خان صاحب وزیراعظم بن گئے تو ’’نیا پاکستان‘‘ ایک طرف رہا پرانے پاکستان کا مزید حلیہ بگڑ جائے گا۔ خیر یہ باتیں تو ضمناً زیر بحث آگئیں۔ ہم سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن پر قیاس آرائی کرنا چاہتے ہیں جو 12 مارچ کو ہورہے ہیں اور جس میں اپنے اپنے امیدوار جتوانے کے لیے بڑے گرو میدان میں ہیں۔ قارئین سینیٹ کے 52 ریٹائرڈ ارکان کی جگہ نئے ارکان کے انتخاب کا ڈراما دیکھ چکے ہیں۔ اس انتخاب میں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی بولی لگی تھی۔ عمران خان کے بقول بکنے والے ایم پی اے نے چار چار کروڑ روپے قیمت وصول کی، اس منڈی میں تحریک انصاف کے ارکان نے بھی خوب ہاتھ رنگے اور خان صاحب کا پارٹی ڈسپلن زرداری کی تجوری کی نذر ہوگیا۔ ایم کیو ایم کا حال تو بہت ہی پتلا رہا اس کے ارکان بھی کروڑوں کے مول بک گئے۔ اب سینیٹ کی قیادت کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے۔ اس انتخاب میں اب سینیٹ ارکان اپنے دام کھرے کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) اگرچہ سینیٹ الیکشن میں اکثریتی پارٹی بن کر اُبھری ہے لیکن اتنی اکثریت اس کے پاس بھی نہیں ہے کہ وہ تنہا اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لاسکے۔ اسے لازماً اپنی اتحادی جماعتوں اور آزاد ارکان کا تعاون حاصل کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اگر تحریک انصاف کو اپنے ساتھ ملا لے تو وہ آزاد ارکان بلوچستان اور فاٹا ارکان کو منہ مانگی قیمت دے کر اپنا چیئرمین منتخب کراسکتی ہے اور ڈپٹی چیئرمین کی سیٹ تحریک انصاف کی نذر کرسکتی ہے۔ زرداری شاید انہی خطوط پر سوچ رہے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ وہ بالواسطہ طور پر تحریک انصاف کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ تحریک انصاف کو اس وقت سینیٹ میں اپنی بارہ نشستوں کے ساتھ بیلنس آف پاور کی حیثیت حاصل ہے۔ اصل مقابلہ تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہے۔ تحریک انصاف اِن دونوں میں سے جس کا ساتھ دے گی وہی فاتح قرار پائے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ نواز شریف کو تو آؤٹ کرچکے ہیں اب زرداری کی باری ہے۔ حالاں کہ نواز شریف کے بارے میں ان کے دعوے میں حقیقت نہیں وہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ضرور ہوئے ہیں لیکن بقول شخصے انہوں نے عدلیہ کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے خود کو پارٹی کا تاحیات قائد بنالیا ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں ’’کرلو جو کرنا ہے‘‘۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی باقاعدگی سے میاں نواز شریف کے گھر پر حاضری دیتے اور ان سے ہدایات لیتے ہیں۔ ہم جب یہ سطور لکھ رہے ہیں تو خبر آئی ہے کہ وزیراعظم دورہ نیپال سے واپسی پر سیدھے جاتی امرا پہنچے ہیں اور ان سے سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن پر مشاورت کی ہے۔ عمران خان بتائیں کہ میاں نواز شریف کہاں آؤٹ ہوئے ہیں وہ پہلے بادشاہ تھے اب بادشاہ گر بن گئے اور عدالتی فیصلہ انہیں اس منصب سے ہٹانے میں بے بس نظر آرہا ہے۔ رہے آصف زرداری تو احتساب عدالت انہیں کرپشن کے تمام مقدمات سے بری قرار دے چکی ہے اور وہ کلین چٹ کے ساتھ سیاست میں اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ’’پیسہ پھینک تماشا دیکھ‘‘ کہا جارہا ہے کہ زرداری پیسہ کمانے میں بھی استاد ہیں اور پیسہ پھینک کر تماشا دیکھنے میں بھی ان کا جواب نہیں۔ انہوں نے سینیٹ کے الیکشن میں پیسہ پھینک کر خوب تماشا دیکھا، یہاں تک کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے ارکان کو بھی لے اڑے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ عمران خان ابھی تک نہ نواز شریف کا راستہ روک پائے ہیں نہ زرداری کو رنگے ہاتھوں پکڑ سکے ہیں۔ وہ الزام تو لگارہے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے اور ان کے لوگ بھی بکے ہیں، الیکشن کمیشن نے انہیں بلالیا ہے کہ آؤ ثبوت پیش کرو، وہ ثبوت کہاں سے لائیں گے؟ خود ان کی تحریک انصاف کے ایک لیڈر چودھری سرور ہارس ٹریڈنگ کے نتیجے میں سینیٹر بنے ہیں، وہ اپنی بے گناہی کیسے ثابت کرپائیں گے۔ درحقیقت جس کرپٹ نظام کو ختم کرنے کا دعویٰ لے کر عمران خان سیاست کے میدان میں کودے تھے اب وہ خود اس نظام کا عملی پرزہ بن گئے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کو کرپٹ کہتے نہیں تھکتے تھے لیکن انہوں نے اس کا کرپٹ سیاسی کچرا اپنی پارٹی کے اندر جمع کرلیا ہے اور اسے اپنی سیاسی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ بس ایک زرداری سے سیاسی اتحاد باقی ہے۔ اگر انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں یہ کڑوا گھونٹ پی لیا تو سمجھیے انہوں نے پاکستانی سیاست کی ساری منزلیں طے کرلیں، ٹھٹھک گئے تو پھر انہیں اپنی جدوجہد کو ازسرنو منظم کرنا ہوگا۔
سینیٹ کی قیادت کے انتخاب کا نتیجہ خواہ کچھ نکلے، مسلم لیگ (ن) کامیاب ہو یا پیپلز پارٹی۔ یہ بات تو کھل کر سامنے آگئی ہے کہ الیکشن کوئی بھی ہو اس کرپٹ نظام میں پیسے کے بغیر نہیں جیتا جاسکتا۔ خود عوام بھی پیسے کے چکر میں آئے ہوئے ہیں انہیں اس چکر سے نکالنے کے لیے ایک مخلص اور ایماندار قیادت کی ضرورت ہے، وقت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ قیادت صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے، پاکستان کے عوام اس قیادت پر اعتماد کریں گے تب ہی بات بنے گی، ورنہ وہ اسی شیطانی چکر میں پھنسے رہیں گے۔ پاکستان کا مستقبل مخلص اور دیانتدار قیادت سے وابستہ ہے اور آئندہ انتخابات عوام کو اس قیادت کے انتخاب کا نادر موقع فراہم کررہے ہیں۔