فیصلے اپنے اپنے مقام پرہونے چاہئیں

225

وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے جو میاں نواز شریف بھی کررہے ہیں بلکہ اب تو اس کی مہم چلارہے ہیں کہ فیصلے پولنگ اسٹیشنوں میں ہونے چاہئیں۔ یہ بات وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے تو دعویٰ کیا کہ سینیٹ الیکشن میں ایک پائی بھی خرچ نہیں کی۔ اور یہ دعویٰ درست بھی لگ رہا ہے کیونکہ پائی پیسہ اب چلتا نہیں۔بات لاکھوں کروڑوں کی ہوچکی ہے۔ اپنے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز کے مقابلے میں اچانک تقریباً دو گنا سینیٹرز کامیاب کرانے والی پارٹی کے وزیراعظم یا لیڈروں کی جانب سے ایسا دعویٰ عجیب لگ رہا ہے لیکن اسے تسلیم کرلیا جائے یا مسترد فرق تو کوئی نہیں پڑے گا۔ کیونکہ پاکستان میں اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ان سب میں فیصلہ پولنگ اسٹیشنوں کے نام پر ہی ہوا ہے۔ کسی کو اعتراض ہو تو بھی فیصلہ تو پولنگ اسٹیشن میں ہی ہوتا ہے۔ خواہ وہ کراچی کے ویران پولنگ اسٹیشن ہوں جہاں سے ایم کیو ایم کے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ ووٹ نکلتے ہیں اور عمران خان تو ایک سو حلقوں میں 35 پنکچر کی بات کررہے تھے۔ بہر حال چار فوجی حکومتوں کو ایک طرف رکھ دیں تو بھی میاں نواز شریف کا تین مرتبہ انتخاب، پیپلزپارٹی کا چار مرتبہ انتخاب، پنجاب میں مسلم لیگ ن کا مسلسل انتخاب اور سندھ میں پیپلزپارٹی کا انتخاب ان کی حکومتیں یہ سب پولنگ اسٹیشنوں کے فیصلوں کے نتیجے میں قائم ہوئیں۔ لیکن کیا عوام کو وہ کچھ مل گیا جس کے لیے وہ لمبی لمبی قطاریں لگاکر پولنگ اسٹیشن جاتے رہے ہیں اور 2018ء میں بھی وہیں جائیں گے۔ جس قسم کے وعدوں پر یقین کرکے کروڑوں کی تعداد میں عوام پولنگ اسٹیشن جاتے ہیں وہ وعدے کبھی وفا نہیں ہوتے۔ عوام کا یہ حال ہے کہ وہ اشتہارات اور ٹی وی کے پروپیگنڈے کے زیر اثر آکر لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں پھر اسی میڈیا کے ذریعے پیسہ لگاکر ان ہی لوگوں کے ناکردہ کارناموں کی تشہیر کی جاتی ہے اس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس نے سوال بھی کرلیا کہ 10 سال پنجاب میں کیا کارنامے کیے گئے۔ انہوں نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ شہباز شریف تصویریں کھنچوانے کے شوقین ہیں تو یہ اشتہار بھی دیں کہ فلاں فلاں کام نہیں کرسکے۔ لوگوں کو بتائیں کہ صحت کو ترجیح نہیں دی گئی۔ ترقیات اور اشتہاروں پر اربوں روپے لگادیے لیکن لوگ صاف پانی سے محروم رہے۔ شہریوں کو زہریلا پانی ہی فراہم کیا جاتا رہاحخومت کو یہ جو پولنگ اسٹیشن یاد آرہے ہیں اس کے دو اسباب ہیں ایک تو الیکشن 2018ء سر پر ہے۔ دوسرے عدالتوں میں مسلم لیگ ن کے سابق سربراہ میاں نواز شریف کے خلاف مقدمات ہیں۔ جو مقدمہ اٹھاؤ میاں صاحب کے معاملات صاف نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ مالی کرپشن ثابت نہیں ہوئی لیکن یہ کیا کہ حکمران ہیں اور غلط بیانیاں ہی غلط بیانیاں کی جارہی ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ اگر براہ راست کرپشن نہیں تو حکمران خاندان کی دولت میں اضافے کا سبب ان کے اختیارات ہیں۔ ان کو لوگ خود زیادہ سے زیادہ رعایتیں دیتے ہیں۔ جس کو اورنج ٹرین کا ٹھیکا چاہیے وہ حمزہ شہباز کے بزنس کو فائدہ پہنچانے لگتا ہے۔ جس کو پاکستان میں مال چاہیے وہ لندن میں حسین یا حسن نواز کو کوئی فائدہ پہنچاسکتا ہے اور یہ سارا کھیل ان سارے ہی حکمرانوں نے کھیلا ہے جن کے فیصلے پولنگ اسٹیشنوں پر ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ فیصلے پولنگ اسٹیشنوں پر ہونے چاہئیں لیکن ان فیصلوں کے نتیجے میں اب تک عوام کی قسمت نہیں بدلی اس کا ذمے دار کون ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کسی کی غلط بیانی پر گرفت کی ہے اور پولنگ اسٹیشنوں میں غلط بیانی پر گرفت اس لیے نہیں ہوتی کہ لوگ پچھلی مرتبہ کے وعدے بھول چکے ہوتے ہیں اور نئے وعدوں اور خوابوں کی تکمیل کے لیے بے وقوف بن رہے ہوتے ہیں لہٰذا وزیراعظم صاحب پولنگ اسٹیشن کے فیصلے پولنگ اسٹیشنوں پر اور عدالتوں کے فیصلے عدالتوں میں ہونے دیں۔ اور پولنگ اسٹیشنوں پر بلائے گے عوام سے کیے گئے وعدے پورے کریں۔ صاف پانی، روزگار، رہائش، تعلیم، صحت کی سہولتیں کہاں ہیں۔ کشمیر، عالمی طاقت، معاشی ترقی اور بجلی تو کوئی پوچھتا ہی نہیں کیونکہ بجلی کا وعدہ ہر حکومت کرتی ہے اور اس سے قبل کہ وعدہ پورا کرے اس کی لوڈ شیڈنگ ہوجاتی ہے۔ کشمیر واپس لینے کی باتیں یہ لوگ کہیں بھی کریں اس کا فیصلہ یہ نہ پولنگ اسٹیشن پر کرسکتے ہیں اور نہ میدان میں۔ یہ صرف باتوں کے تیر چلاتے ہیں۔ ایٹمی قوت کی یہ حفاظت نہیں کرپارہے، دہشت گردی کا خاتمہ ان سے نہیں ہوپارہا، ان سے مراد سیاسی و فوجی دونوں طاقتیں۔ سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ جس چیز کا فیصلہ جہاں ہونا چاہیے وہاں نہیں ہوگا تو کہیں تو ہوگا۔ پھر شکوے شکایت کیوں۔ بات صرف وعدوں پر عمل کی نہیں ہے وزیراعظم یہ بتاسکتے ہیں کہ ایک دن میں کئی کئی ارکان اسمبلی اپنی پارٹیاں چھوڑتے ہیں، انہیں مسلم لیگ ن کا رکن بنالیا جاتا ہے پھر ان کو سینیٹ کا ٹکٹ دے دیا جاتا ہے تو یہ فیصلے کہاں ہوتے ہیں۔ پارٹی کے لوگ بھی ان فیصلوں سے لا علم ہوتے ہیں۔ یہ کام صرف مسلم لیگ نہیں کرتی۔ اس میں پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی بھی شامل ہیں جب یہ سیاسی پارٹیاں فیصلے کرتی ہیں تو کہاں کرتی ہیں۔ یہ جو چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہے اس سے قبل سینیٹرز کے ٹکٹ تھے ان سب کا فیصلہ کہاں ہوا۔ چیئرمین کے لیے نام کا انتخاب کون کہاں کررہاہے۔ ان فیصلوں کا پولنگ اسٹیشن سینیٹ ہے لیکن کہیں اور فیصلے ہورہے ہیں۔اس سے زیادہ حیرت کی بات کیا ہوگی کہ سینیٹرز کو اس طرح ایک دوسرے کے حوالے کیا جارہاہے جیسے بھیڑ بکریاں ہیں۔ ہمارے سینیٹر فلاں کے حوالے۔