لاپتا افراد کی فاٹا کے حراستی مراکز اور مختلف جیلوں میں موجودگی کا انکشاف 

580

کراچی (رپورٹ۔ خالد مخدومی) ملک کے مختلف حصوں سے جبری طور پرلاپتا ہونے والے افراد کی فاٹا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حراستی مراکز اور مختلف جیلوں میں موجودگی کا انکشاف ہو اہے ، فروری میں ملک بھر سے مزید 116کو جبری طور پر لاپتا کردیا گیا، جبکہ برسوں سے لاپتا 18افراد پر اسرار طور پر گھروں کوپہنچ گئے ،2012 سے لاپتا ایک فرد اور ایک سال سے لاپتا 2 افراد کے بارے میں فروری 2018ء میں انکشاف ہو اکہ وہ پولیس مقابلے میں مارے گئے، لاپتا افرا د کے کمیشن کی سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک بھر سے جبری طورپراب تک لاپتا رہنے والے افراد کی تعداد 1640 ہے ، جب کہ غیر سرکاری تنظیمیں یہ تعداد 6 ہزار سے زائد بتاتی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم لاپتا افرا د کے کمیشن کی مارچ 2018ء میں جاری ہو نے دستاویز ات میں جبری طور لاپتا افراد میں کچھ کے بارے میں حقائق سامنے آئے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق ملک بھر میں شہریوں کاجبری طور پر لاپتا کیے جانے کاسلسلہ جاری ہے ،صرف فروری 2018 جبری طور پر لاپتا کیے جانے والے 116افراد کے اہل خانہ نے کمیشن سے رابطہ کیا اور ان کی بازیابی کے لیے درخواستیں دیں ،جبکہ فروری میں ایسے 18فرادپر اسرار طور پر اپنے گھروں کولوٹ آئے جو برسوں سے لاپتا تھے ،جسارت نے بازیاب ہو نے والے افراد سے رابطہ کر کے ان سے بات چیت کرنی چاہی مگر کسی نے بھی اپنی گمشدگی اورواپسی کی بارے میں کسی قسم کی بات کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح کمیشن کی رپورٹ سے اس بات کابھی انکشاف ہو اکہ لاپتا ہونے افراد میں سے 3کو مارا جاچکاہے ،جن میں سے ڈیرہ اسمعٰیل خان سے 2012 ء میں نامعلو م افراد کے ہاتھوں جبری طور لاپتا محمد معصب کے بارے میں مارچ 2018ء میں بتایا گیاکہ وہ محکمہ انسداد دہشت گردی کے ساتھ مقابلے میں مار اگیا،اسی طرح ایک2017 ء میں بہاولپور اورڈیر ہ غازی خان سے لاپتا ہونے والے 2افراد عابد حسین اور محمد اسمٰعیل کے بارے میں مارچ 2018ء میں بتایا گیاکہ وہ سی ٹی ڈی کے ساتھ مقابلوں میں مارے جاچکے ہیں، تاہم کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ان مقابلوں کے مقام اوروقت کے بارے میں تفصیلات ظاہر نہیں کی ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کابھی انکشاف ہو اکہ برسوں سے لاپتا4 افرادکو ان کے اہل خانہ کے علم میں لائے بغیر فوجی اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے سزائیں بھی سنائی جاچکی ہیں۔رپورٹ کے مطابق لاہور سے 2014 میں لاپتا ہونے والے ابرار احمد کے بارے میں ملٹری انٹیلی جنس کے افسر نے کمیشن کے سامنے اعتراف کیا کہ ابراراحمد کوفوجی عدالت کی جانب سے عمر قید کی سزاسنائی جاچکی ہے اوروہ کوہاٹ جیل میں قید ہے ،گزشتہ 7سال سے جبری طور پر لاپتا رہنے والے والے محمد آصف کے بارے میں 2018میں بتایا گیاکہ اس کو انسداد دہشت گردی ملتان کی عدالت نے سات سال قید کی سزا سنائی اوراب ا س کو چھوڑ دیا گیاہے ،اسی طرح کوہاٹ سے لاپتا ہونے والے 2016ء سے لاپتا ہونے والے حبیب الرحمن کے بارے میں2سال کے بعد ضلعی پولیس کوہاٹ کے افسرنے کمیشن کو بتایا کہ وہ فیصل آبادکی جیل میں قید ہے اورانسداد دہشت کی عدالت سے ا س کو سزاسنائی جاچکی ہے ،لاپتا افراد کے کمیشن کے سامنے ملٹری انٹیلی جنس اور قانوں نافذکرنے والے دوسرے اداروں نے برسوں سے لاپتا متعددافراد کے اپنی حراست میں ہونے کابھی اعتراف کیا، ملٹری انٹیلی جنس نے 2016میں ہنگو سے لاپتا یاسر علی،بشیر احمدکے بنوں میں قید ہونے کاانکشاف کیا۔اسی طرح ملٹری انٹیلی جنس کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں سے لاپتا ہونے والے 10افراد کے بارے میں اعتراف کیا کہ وہ 2011میں بنائے گئے ان ایڈآف سول پاور ریگولیشن کے تحت بنائے گئے حراستی مراکز میں قید ہیں ،مذکورہ برسوں سے کسی قسم کی قانونی کارروائی کے ان مراکز میں موجودہیں،قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کمیشن کویقین دہانی کرائی ہے کہ مذکورہ افراد کو جلد ان کے اہل خانہ سے ملوایا جائے گا۔