المیہ شام کا نہیں امت کا ہے

426

ہم کیا ہیں۔ اپنی کسی قدر، کسی طاقت، کسی صلاحیت۔۔۔ غرض کسی چیز پر اعتبار اعتماد بھروسا نہیں۔ کوئی نظام نہیں جس کا جی چاہتا ہے امت مسلمہ کو ہانک دیتا ہے۔ میری گفتگو یا میرے موقف کو پوری طرح پڑھ کر کوئی رائے قائم کی جائے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے ہمیں ایک بات کا شدت سے احساس ہورہا تھا کہ دنیا میں ہر قوم کا کوئی نہ کوئی ایسا میڈیا کوئی نہ کوئی ایسا نظام موجود ہے کہ اس کی مدد سے اس قوم کے عوام کی رائے بنائی جاتی ہے۔ انہیں رہنمائی ملتی ہے غلط یا صحیح کوئی بھی راستہ دکھایا جاتا ہے لیکن امت مسلمہ اس حوالے سے محرومی کے اندھیروں میں ہے، ہمیں اپنے ملک کی خبر بھی مغرب سے ملے تو زیادہ یقین کرتے ہیں۔ اگر ہمیں پاناما سے خبر ملے کہ پاکستانی حکمرانوں کے کاروبار بیرون ملک ہیں تو ہم یقین کرتے ہیں، تیس تیس چالیس چالیس سال سے ان کو بھگت رہے ہیں یقین نہیں کرتے۔ اب آج کل امت مسلمہ ایک کربناک کیفیت سے گزر رہی ہے، ہر واٹس اپ گروپ شام کے المیے کا ذکر کررہا ہے، اخبارات میں مضامین، سماجی تنظیموں کے سیمینار، فیس بک پر پوسٹیں اور ایسی ایسی کہ بس اگر شیئر نہ کی تو ایمان بھسم۔ ’’شام لہو لہو‘‘ شام میں انسانی المیہ، شامی مسلمان ظلم کا شکار اور مسلمان حکمران مزے میں یا ان پر اس طرح تنقید کی جاتی ہے کہ شامی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور امت مسلمہ سو رہی ہے، جس منظم انداز میں یہ بیداری کی لہر اُٹھائی جارہی ہے اس کے نتیجے میں مسلمان نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے، کوئی براہ راست شام پہنچنے کا راستہ تلاش کررہا ہے تو کوئی پہنچ بھی گیا، کسی نے چندے جمع کرنے شروع کردیے ہیں تو کسی کو اتنا ہی سمجھ میں آیا کہ پاکستانی، سعودی اور مسلمان ممالک کی افواج پر ہی لعن طعن شروع کردی۔ یہ سب کیا ہے؟؟ یہ معاملہ یورپ کے کسی ساحل پر پڑے ایک بچے کی لاش سے اچھلایا اچھالا گیا۔ لاش کی مختلف پہلوؤں سے تصاویر لی گئیں، اسے اٹھانے کا کام بعد میں کیا گیا اور پھر ساری مسلم دنیا شامی مہاجرین کے مسئلے پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لگ گئی۔ سب لگے سعودی عرب کو لتاڑنے۔ ترکی کو برا بھلا کہنے۔ آخر کار سعودی سفیر کو بتانا پڑا کہ تقریباً 30 لاکھ شامی سعودی عرب میں پناہ گزین ہیں۔ لیکن مہاجر کیمپوں میں نہیں گھروں میں رہتے ہیں، ترکی نے 19 لاکھ کو پناہ دے رکھی ہے، کویت نے لاکھوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ تو نیا معاملہ سامنے آیا۔ اب یہ معاملہ ہے کہ شامی مسلمانوں کو ہلاک کیا جارہا ہے۔
جی بالکل ایسا ہی ہے۔ شامی مسلمانوں کو ہلاک کیا جارہا ہے ان کے گھروں، ہسپتالوں، اسکولوں، سڑکوں، عمارتوں سب کو تباہ کیا جارہا ہے۔ ہمارے سماجی ذرائع ابلاغ والے ان ہولناک تصویروں کی وجہ سے اور زیادہ جذباتی ہوجاتے ہیں جو سامنے آتی ہیں۔۔۔نہیں۔۔۔ یہ خاص طور پر سامنے لائی جاتی ہیں۔ اب ذرا کچھ دیر رک کر غور کریں۔ کچھ عرصے قبل غزہ کے محاصرے کو توڑنے کے لیے فریڈم فلوٹیلا کا شور مچا تھا۔ بہت سے لوگ گئے تھے فلوٹیلا غزہ پہنچ گیا۔ اس پر حملہ بھی ہوا، خوراک بھی پہنچ گئی، محاصرہ ختم ہوا؟؟۔ جن لوگوں نے یہ مسئلہ سماجی میڈیا اور مرکزی دھارے کے میڈیا پر اٹھایا تھا انہوں نے کوئی نیا مسئلہ اٹھادیا۔ محاصرہ جاری ہے، فلسطینیوں کو اسی بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے جیسے پہلے کیا جارہا تھا۔ لیکن ان کی تصویروں کی بھرمار نہیں ہے۔ اسرائیلی مظالم پر امریکا، یورپ، برطانیہ اور مسلمان ممالک پر کوئی تنقید نظر نہیں آئی۔ کیا فلسطینی امن وامان میں ہیں، آگے چلیں، زیادہ دن نہیں گزرے میانمار میں فوجی حکمرانوں اور بودھ بھکشوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کا غلغلہ ہوا۔ اور سب اس کے پیچھے لگ گئے۔ اب کہیں کہیں کوئی ایک آدھ پوسٹ گھومتی پھرتی آجاتی ہے۔ کیا میانمار کے مسلمان امان میں آگئے ہیں۔ ان کو بنگلادیش نے قبول کرلیا ہے، کیا ان کی ارکان ریاست بحال کرکے انہیں دے دی گئی ہے۔ نہیں۔ ان پر پہلے سے زیادہ مظالم ہورہے ہیں، ہاں وہ پلیٹ گنیں کہاں گئیں جو بھارتی نریندر مودی کی افواج کشمیر میں استعمال کررہی تھیں، کیا کشمیریوں پر مظالم ختم ہوگئے ہیں، علاقے گھیر کر تلاشیاں لینا بند ہوگیا ہے، خواتین کی عزتیں تار تار کرنا بند ہوگیا ہے۔ نہیں یہ سب کچھ اور زیادہ شدت سے ہے بلکہ آسام سے 30 لاکھ مسلمانوں کو نکالنے کی تیاریاں ہیں۔ پھر ہمارا سماجی میڈیا صرف شام پر کیوں لگا ہوا ہے۔ کیا عراق میں ٹھیک ہے۔ افغانستان میں امن کی فاختائیں اُڑ رہی ہیں، امریکی بدنام زمانہ بگرام اور گوانتاناموبے جیل میں بریانیاں کھلائی جارہی ہیں۔۔۔نہیں۔۔۔ وہاں سب کچھ پہلے جیسا بلکہ اس سے بھی بدتر ہورہا ہے۔ عافیہ کہاں ہے، سب بھول گئے، کون ایشوز کو اُٹھاتا ہے کون دباتا ہے اور سچ یہی کہ کسی کے بٹن دبانے پر رُخ بدل لیتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ شام پر آواز نہ اُٹھاؤ۔ لیکن تمام دانشوروں، سماجی رابطوں کے شہسواروں اور مرکزی دھارے (مین اسٹریم) کے ذرائع ابلاغ سے بھی درخواست ہے کہ امت مسلمہ کے جو دشمن مستقل ہیں وہ مستقل ہمارا ہدف رہنے چاہئیں، ان کے ہر قدم پر نظر رکھنی چاہیے، ہم اتنی جلدی جلدی کسی اور کے اشارے یا سازش پر ایشوز کیوں بدل لیتے ہیں۔ کیا چند ہی لوگ ہیں جو یہ کام کررہے ہیں، ہمارے طاقت کے مراکز جو کئی کئی سو واٹس اپ گروپ چلارہے ہیں وہ بھی سوچیں یہ سیاسی جماعتیں جو اپنے لیڈروں کی تشہیر سے زیادہ دوسرے کے لیڈر کی تذلیل پر قوت صرف کرتی ہیں وہ بھی سوچیں اپنے سارے کام کریں لیکن امت مسلمہ کے دشمنوں کی نشاندہی بھی کریں ان کے کہنے پر ایشوز نہ اُٹھائیں۔
(جاری ہے)