عدالت عظمٰی نے سر کاری اشتہارات میں سیاسی شخصیات کی تصاویر پابندی لگادی 

736

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک+ خبر ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سرکاری اشتہارات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے گزشتہ روز پنجاب حکومت کی لیپ ٹاپ اور ہیلتھ کارڈ اسکیم پر وزیراعلیٰ شہباز شریف کی تصویر کا از خود نوٹس لیا تھا۔ دوران سماعت خیبرپختونخواکے سیکرٹری اطلاعات عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کے پی حکومت نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیاپر کتنے اشتہارات دیئے؟ یہ بتائیں کن اشتہارات پر عمران خان اور پرویز خٹک کی تصاویر ہیں؟ سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ ٹی وی، اخبار، ریڈیو اور سوشل میڈیاپراشتہارات دیے گئے، سوشل میڈیا کو کسی قسم کی ادائیگیاں نہیں کی جاتیں جب کہ وزیراعلیٰ یا عمران خان کی تصویر اشتہارات میں دینے کی پالیسی نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اخبارات کے اشتہار کوبند نہیں کررہے، اخبارات کیاشتہارات کی ایک کیٹگری کوبند کررہے ہیں، سیاسی تصویر والے اشتہار بند ہوں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے سیکرٹری اطلاعات کے پی کے سے استفسار کیا کہ گزشتہ ایک ماہ میں اشتہارات کی مد میں کتنی رقم خرچ کی؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 3 ماہ میں 20کروڑ 47 لاکھ روپے کے اشتہار دیے گئے اور پی ٹی آئی حکومت میں اب تک ایک ارب 63 کروڑ روپے کے اشتہارات دیے۔ سیکرٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ کے پی صوبے کی پالیسی کے تحت زیادہ تراشتہارات ذاتی تشہیر کے لیے نہیں ہوتے، اشتہارات عوامی سہولیات اور منصوبوں سے متعلق معلومات پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہمیں بیان حلفی دیں کہ کسی لیڈر شپ کی تصویر نہیں لگائی گئی، اگر جھوٹا بیان حلفی دیا تو ایکشن لیں گے کیونکہ آپ ریاست کے ملازم بھی ہیں، وہ اشتہار لے کر آئیں جن پر عمران خان اور پرویز خٹک کی تصویر تھی، سیاسی شخصیات کی اشتہارات پر تصاویر ہوئیں تو ذمے دار آپ ہوں گے۔چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات سے ایک سال کے اشتہارات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کل تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو کل 3 ماہ کی تفصیلات دینے کی یقین دہانی کرائی۔چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہا تھا کہ سیاسی مہم کی اجازت نہیں دیں گے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور عمران خان کی تصاویر لگانابند کریں، اشتہارات کی مہم پرلگنے والا پیسہ قومی خزانے کا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں اشتہارات سے کوئی غرض نہیں، ذاتی تشہیرنہیں ہونی چاہئے، بے نظیر بھٹو، وزیراعلیٰ سندھ اور بلاول بھٹو کی تصویر بھی نہیں آنی چاہیے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سرکاری اشتہار کے 55 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع کرادیے؟۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے چیک جمع کرانے سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان شاء اللہ الیکشن صاف اور شفاف ہوں گے، کوشش کریں گے 1970ء کے بعد اس مرتبہ شفاف الیکشن ہوں۔ الیکشن میں بیوروکریسی کو بدل دیں گے اور دوسرے صوبوں میں ٹرانسفر کردیں گے، بیوروکریسی کے سر پر سارے کام ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے اور اٹارنی جنرل، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو نوٹس جاری کر دیے ہیں جبکہ عدالت نے فیصل صدیق ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کر دیا ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ اب معافی کا وقت گزر چکا ہے ، شاہد مسعود کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی اور سزا ہو گی ،عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیا اس کیس میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ پروگرام میں جو کہا اس پر ندامت کااظہار کرتاہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرابتائے کتنے دن کے لیے پروگرام بند ہوسکتاہے ، کتنے عرصے کے لیے چینل کو بند کیا جا سکتا ہے ۔عدالت نے مزید سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی ۔