سوشل میڈیا پر جعلی خبروں سے متعلق دنیا کی سب سے بڑی تحقیق

348

’فیک نیوز‘ یا جعلی خبروں کے بارے میں ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی تحقیق کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جعلی خبریں بہت تیزی سے اور بہت دور تک پھیلتی ہیں۔ اس حد تک کہ صحیح خبریں بھی ان کے سامنے ختم ہو جاتی ہیں۔
گزشتہ 10 برس میں انگریزی زبان میں 30 لاکھ افراد کی سوا لاکھ سے زیادہ ٹوئٹس پر تحقیق کے بعد محققین کا دعویٰ ہے کہ جعلی خبریں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔ تحقیقی میگزین ’سائنس‘ میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ ٹوئٹر پر پھیلنے والی جعلی خبروں پر مبنی ہے لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ نتائج فیس بک اور یوٹیوب سمیت سبھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے صحیح ہیں۔ اس ریسرچ کی نگرانی کرنے والے میساچوسیٹس یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے سوروش ووشوگی نے بتایا کہ ہماری ریسرچ میں یہ واضح ہے کہ یہ انسانی مزاج کی کمزوری ہے کہ وہ ایسا مواد پھیلائے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ افواہیں پھیلانا یا ان پر یقین کر لینا انسانی مزاج کا حصہ ہے اور سوشل میڈیا سے انہیں ایک ذریعہ مل گیا ہے۔
اس رپورٹ کے ساتھ ایک اور مضمون بھی شائع کیا گیا ہے جسے کئی مشہور ماہر سیاسیات نے مل کر لکھا ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی خبروں کے بازار میں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ نظام آخر کیسا ہو جس میں جھوٹ کے بجائے سچ کو بڑھاوا مل سکے؟
سوروش ووشوگی کے مطابق ایک ایسے نظام کو لانا آسان نہیں ہوگا۔ جھوٹی خبر، سچی خبر کے مقابلے 6گنا زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ تجارت، دہشت گردی، جنگ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی خبریں بہت زیادہ پسند اور شیئر کی جاتی ہیں لیکن سیاست سے متعلق جعلی خبریں زیادہ آسانی سے ٹرینڈ کرنے لگتی ہیں۔
ماضی میں بھی فیک نیوز پر کئی بار تحقیق ہوئی ہیں لیکن وہ تمام کسی خاص واقعہ پر مبنی تھیں۔ مثال کے طور پر بم دھماکے یا قدرتی حادثات کے بارے میں۔ حالیہ ریسرچ 2006ء سے 2016ء کے دوران انگریزی میں کی جانے والی ٹوئٹس پر مبنی ہے۔ اس لحاظ سے یہ بہت وسیع تحقیق ہے۔
سچ کا معنی بیان کرنا اور اس کی جانچ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ محققین نے اس کے لیے حقائق کی تصدیق کرنے والی کئی ویب سائٹس کی مدد لی اور ان ویب سائٹس کی مدد سے انہوں نے سیکڑوں ایسی ٹوئٹس نکالیں جو جعلی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے سرچ انجن کی مدد سے یہ معلوم کیا کہ یہ جعلی خبریں کس کس طرح پھیلیں۔ انہوں نے اس طرح ایک لاکھ 26 ہزار ٹوئٹس نکالی جنہیں 45 لاکھ مرتبہ ری ٹویٹ کیا گیا۔ ان میں سے چند میں دوسری ویب سائٹس کی جعلی خبروں کے لنک بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ اصل اور صحیح خبروں کے پھیلنے کے بارے میں بھی تحقیق کی ۔
سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جعلی خبریں زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہیں اور ان کے پھیلنے کا دائرہ بھی وسیع ہوتا ہے۔