جوتوں کی زبان

1313

اردو شاعری کے مجموعی مزاج سے مختلف نظیر اکبر آبادی جن کی شاعری میں محبوب اور عشق کی عشوہ طرازیوں کے بجائے روٹی اور مفلسی کی داستانیں ملتی ہیں۔ جنہیں ناقدین نے نااہل باور کیا، قابل توجہ نہ سمجھا لیکن جنہوں نے ناقدین کی عدالتوں کے فیصلوں کو عوام کی رائے کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ان کی مشہور نظم آدمی نامہ میں جوتوں کا اس انداز سے ذکر ہے۔
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نماز یاں
اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں
جو اُن کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
جوتوں کے حوالے سے اردو زبان میں بہت سے محاورے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک جوتیاں چٹخاتے پھرنا ہے۔ فسانہ آزاد میں اسے یوں رقم کیا گیا ہے ’’جھوٹ بولنے والے خوشامد کرنے والے تو مزے اڑائیں اور علماء فضلا جوتیاں چٹخائیں۔‘‘
آپ کے کوچے میں دشمن رات دن
جوتیاں پھرتے ہیں چٹخاتے ہوئے
جوتے پر جوتا چڑھ جائے تو اس سے صاحب جوتا کو سفر درپیش ہونے کا شگون لیا جاتا ہے۔ جوتیوں کا صدقہ بھی دیا جاتا ہے، یہ ایک انکساری کلمہ ہے بمعنی آپ کی بدولت۔ جوتے کا یار بھی ہوتا ہے مطلب جو زبردست کا ساتھ دے۔ جوتی پر رکھ کر روٹی بھی دی جاتی ہے۔ شوہر مطیع اور فرمانبردار رہے اس غرض سے جوتی پر کاجل پارکر شوہر کے سرمہ لگایا جاتا ہے۔ مخالفین کو جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے حالاں کہ جوتے کی نوک پر اتنی جگہ نہیں ہوتی۔ جوتے توڑنا سے مراد فضول کوشش کرنا ہے۔ جوتا تنگ ہو تو کاٹتا بھی ہے۔ میری جوتی سے یا میری جوتی جانے سے کسی بات سے لاتعلق ہونا مراد لیا جاتا ہے۔ اکثر خواتین اسے بولتی ہیں۔
جوتی جانے میری مجھے کیا کام
جس نے بلوایا ہے اسے دو پیام
جوتیوں میں دال بٹے تو سمجھیں شدید پھوٹ پڑی ہے، بے حد نا اتفاقی اور بہت لڑائی جھگڑا ہے۔
جو بزم غیر میں منہ کا ترے اُگال بٹے
خدا کرے کہ وہاں جوتیوں میں دال بٹے
جوتوں سے شادی بیاہ کے موقعوں پر ایک رسم بھی وابستہ ہے۔ جسے جوتی چھپائی کہا جاتا ہے۔ شادی بیاہ میں سالیاں دولھا کا جوتا چھپاکر اپنا نیگ مانگتی ہیں۔ اس موقع پر دولھا کے دوستوں اور دلھن کی بہنوں اور سہیلیوں میں بڑی مزے کی نوک جھونک اور مکالمے بازی ہوتی ہے۔
دولہا کا جس نے جوتا چرایا
منہ مانگا اس نے انعام پایا
مرد کے پیر میں ہوتو جوتا، عورت کے پیر میں ہو تو جوتی۔ ناسخ نے کہا تھا
آسماں سے نظر آتے نہیں تارے دن کو
تیری جوتی کے چمکتے ہیں ستارے دن کو
جوتوں کی کئی اقسام ہیں۔ کھڑاؤں اور بوٹوں کا ذکر تو ہوچکا۔ سینڈل، گرگابی، افغانی چپل، کھسّہ اور ہوائی چپل بھی جوتوں کے خاندان کا حصہ ہیں۔ کینوس شوز اور جوگر بھی اسی قبیل سے ہیں۔ تاہم کوئی بھی قسم ہو جوتے پاؤں میں آتے ہی دوکوڑی کے ہوجاتے ہیں۔ انہیں گھر کی دہلیز یا کمرے سے باہر اتارا جاتا ہے۔ اسپتالوں کی ایمرجنسی میں جانا ہویا آپریشن تھیٹر کے اندروہاں بھی جوتوں سے یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ ہر مذہب کی عبادت گاہوں میں جوتے داخلی دروازے پر ہی چھوڑنے پڑتے ہیں۔ جوتا ناپاک اور قابل نفرت تصور کیا جاتا ہے۔ جوتوں کی بعض اقسام ایسی بھی ہیں جن کے ساتھ موزے پہنے جاتے ہیں۔ انہیں جرابیں بھی کہا جاتا ہے۔ بعض حضرات تا زندگی موزوں کو دھونا لازم نہیں سمجھتے۔ ایسے موزے بے ہوش کرنے کے لیے کارآمد ہوسکتے ہیں۔ اگر جوتے پھینکنے کے بجائے ایسے موزے مارے جائیں تو لگیں نہ لگیں، ہدف کے پاس سے گزر جائیں تو بھی اس کا بے ہوش ہونا یقینی ہے۔ ورلڈ بینک کے ایک سابق سربراہ نے بادشاہی مسجد کے دورے کے موقع پر جوتے اتارے تو ان کے انگوٹھے جرابوں سے باہر جھانک رہے تھے۔ چوہے گھرکی ساری چیزیں چٹ کرجاتے ہیں سوائے۔۔۔
گھر میں جو بچ رہا ہے چوہوں سے
کچھ جرابیں ہیں چند کچھے ہیں
نفرت اور غصے کے مارے بے قابو ہوکر جوتا پھینک مارنا یا جوتوں سے مرمت کرنا ہمارے معاشرے میں بے عزتی کی آخری حد سمجھی جاتی ہے۔ ماں کی جوتیوں کے علاوہ دنیا کے کسی بھی شخص کا جوتا برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ جوتا مارنے سے زیادہ ذلیل کرنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بعضے اسے بھی غنیمت سمجھتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے عمر عبداللہ نے کہا تھا ’’انہیں خوشی ہوگی اگر لوگ پتھروں کے بجائے جوتے ماریں کیوں کہ اس سے نقصان تو نہیں پہنچے گا۔‘‘ اگر غیرت کا جنازہ نکل جائے تو کیا جوتا کیا پتھر سب گوارا۔ ایک نوجوان بھاگا جارہا تھا۔ کسی نے روک کر بھاگنے کی وجہ پوچھی بولا ’’بازار میں لوگ ابّا کو مار رہے ہیں میں بڑی مشکل سے عزت بچاکر بھاگا ہوں۔‘‘
اب تک اپنے تئیں اعلیٰ نصب زمیندار، وڈیرے، جاگیردار، خان غریب ہاریوں، مزدوروں اور کمیوں کو مارنے کے لیے جوتوں کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ جوتا مارنا ذلت کی زبان ہے۔ ایک بادشاہ کسی ملازم سے ناراض ہوگیا۔ سزا کے طورپر اسے کہا گیا یا تو سو کچے پیاز ایک ہی دفعہ میں کھاؤ ورنہ سرعام سو جوتے کھانے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ ملازم نے سوچا سب کے سامنے جوتے کھانے سے بہتر ہے سو پیاز کھالی جائے۔ ابھی اس نے آٹھ دس پیاز ہی کھائی تھیں کہ حالت غیر ہوگئی۔ بولا ’’جوتے مارلو پیاز کھانا میرے بس میں نہیں‘‘۔ دس بیس جوتے کھائے تو یہ بھی ناقابل برداشت ہوگئے۔ بولا ’’اچھا اچھا ٹھیرو میں پیاز کھالیتا ہوں‘‘۔ پیاز کی چند گٹھیاں ہی کھائیں تھیں کہ حالت پھر خراب ہوگئی۔ بولا ’’خدا کے لیے پیاز میرے سامنے سے لے جاؤ میں جوتے کھانے پر راضی ہوں۔‘‘ یوں وہ جوتے بھی کھاتا گیا اور پیاز بھی۔ حتی کہ سو جوتوں کے ساتھ سو پیاز بھی کھا گیا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ طاقتوروں کو کمزوروں کے ہاتھوں سو جوتے بھی کھانے پڑ جاتے ہیں اور سو پیاز بھی۔ یہ حال افغانستان میں امریکا کا ہے۔ وہ میدان جنگ میں طالبان کے ہاتھوں جوتے کھا کر مذاکرات کی پیاز کھانے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ مذاکرات میں مطالبات کی پیاز کھا کھا کر بے قرار ہوتا ہے تو پھر میدان جنگ میں جوتے کھانے کے لیے آموجود ہوتا ہے۔ (جاری ہے)