جمہوریت، ربانی اور سنجرانی

358

چیرمین اور ڈپٹی چیرمین کے انتخاب کے بعد سینیٹ کا انتخابی عمل مکمل ہوگیا چیرمین کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار صادق سنجرانی نے بزرگ سیاسی شخصیت راجا ظفر الحق کو ہرایا جب کہ ڈپٹی چیرمین کے لیے بھی اپوزیشن پارٹیوں کے نامزد امیدوار سلیم مانڈی والا منتخب ہوئے۔ چیرمین سینیٹ کا تعلق ملک کے سب سے پس ماندہ صوبے بلوچستان سے ہے اور ماضی میں ان کی وابستگی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے رہی ہے۔ اس وقت وہ سینیٹ میں آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے ہیں۔ ڈپٹی چیرمین سینیٹ کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے۔ پیپلزپارٹی میں آصف علی زرداری کا بس چلتا تو ان کی پسندیدہ شخصیت فاروق ایچ نائیک یا کوئی اور ہوتا اور مسلم لیگ ن میں نوازشریف کے لیے موجودہ وقت اور حالات میں ایک جنگجو چیرمین کی صورت پرویز رشید بہتر پسند تھے۔ پرویز رشید اور فاروق ایچ نائیک جیسے ناموں پر اصرار کا مطلب محاذ آرائی کو بڑھانے کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ اپنی اپنی پسند کے ان چکروں سے نکلنے اور میثاق جمہوریت کا بھرم رکھنے کے لیے نوازشریف نے اس مسئلے کا حل رضا ربانی کی صورت میں ایک مشترکہ امیدوار کی صورت میں نکالنے کی کوشش کی تھی مگر حالات کے بھنور میں پھنسی ہوئی دونوں جماعتیں اس حد تک جانے کو تیار نہ تھیں اور واپسی کا دروازہ کھلا رکھنا چاہتی تھیں۔ مسلم لیگ ن نے کسی عقاب کے بجائے راجا ظفر الحق جیسی فاختہ کو اس دشت میں پرواز کے لیے چھوڑ دیا جو بھلے سے مسلم لیگ ن کے سہی مگر اب بھی انہیں سب اپنا سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے عمران خان کی پچ پر کھیل کر مشکل سے نکلنے کا راستہ یوں ڈھونڈ نکالا کہ وہ صادق سنجرانی کے نام پر متفق ہوگئی۔
سینیٹ کا یہ انتخابی مرحلہ دو حوالوں سے خاصا اہم ہے۔ اول یہ کہ سینیٹ انتخابات کا منعقد ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں جمہوری عمل کسی رکاوٹ اور اسپیڈ بریکر کا شکار نہیں ہوا بلکہ جہاں ایک طرف سیاسی راہنماؤں کے خلاف تحقیقات کا عمل عدالتوں اور نیب جیسے اداروں میں جاری ہے وہیں ملک میں جمہوری عمل اپنی روایتی رفتار اور روایتی حسن وقبوح کے ساتھ جا ری ہے۔ یہ پیش گوئیاں اور قیاس آرائیاں مدت سے جاری تھیں کہ ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت انہی شکوک وشبہات بلکہ الزامات کے ساتھ گزر گئی اور ملک میں کوئی بغاوت اور انقلاب برپا نہیں ہوا۔ جمہوری عمل افواہوں اور شکوک کے سایوں تلے آگے بڑھتا رہا۔ اب جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں بھی کبھی فوجی تو کبھی عدالتی مارشل لا کی باتیں ہوتی چلی آرہی ہیں اور یہ خدشات پیدا کرنے میں حکمران جماعت پیش پیش ہے۔ اس کے باوجود ملک میں بظاہر کسی اپ سیٹ کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ البتہ چند افراد حکومتی منظر سے ہٹ گئے ہیں اور تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ اس سے جمہوریت کی لٹیا ہی ڈوب کر رہ گئی ہے۔ یہ تاثر قطعی درست نہیں اور نہ ہی جمہوریت کے حقیقی تصور سے لگا کھاتا ہے۔ جمہوریت افراد اور شخصیات کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ جمہوریت روایات، اقدار اور متحرک نظام کا نام ہے۔ یہاں افراد ایک معین اور متعین وقت کے لیے عوامی طاقت سے برسراقتدار آتے ہیں اور عوام یا عوامی نمائندے چاہیں تو انہیں اس متعین وقت سے پہلے بھی گھر بھیج سکتے ہیں۔ افراد بدلتے رہتے ہیں مگر سسٹم کی گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتی ہے۔
جمہوریت میں افراد ناگزیر نہیں ہوتے اقدار ناگزیر ہوتی ہیں اور ان اقدار سے ہٹتے ہوئے نظام کو جمہوریت کے سوا کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے۔ افراد کی ناگزیریت اور فراد کو اور ملک اور نظام کے متبادل سمجھنا شہنشاہیت اور شخصی نظام کا خاصا ہوتا ہے۔ جمہوری اور غیر جمہوری نظام میں یہی باریک سا فرق ہوتا ہے۔ سینیٹ ملک کو ایوان بالا ہے اور اس ایوان کے انتخابی عمل کی تکمیل نے جمہوریت عمل کو قیاس آرائیوں اور پیش گوئیوں کی دھند سے آزاد کر دیا۔ اب یہ بات بڑی حد تک واضح ہو گئی ہے کہ ملک میں سیاست دانوں کے خلاف مقدمات، سزاؤں اور پابندیوں کے باوجود ملک میں جمہوریت کا کارواں آگے بڑھتا رہے گا اور ملک میں کسی فوجی یا عدالتی طالع آزما کا ظہور ونزول نہیں ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی الگ الگ پوزیشنوں نے میثاق جمہوریت نامی معاہدہ کے تابوت میں آخری کیلیں ٹھونک دی ہیں اور اب یہ مردہ اس تابوت سے کبھی باہر نہیں آئے گا۔ برطانوی حکومت نے جنرل مشرف کے دور میں میگنا کارٹا کی طرز پر دو اہم جلاوطن لیڈروں میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان جمہوریت پر کار بند رہنے اور ایک دوسرے کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہ بننے بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کا معاہدہ کرایا تھا۔ اس وقت ملک میں یہی دو اہم اور بڑی جماعتیں تھیں گویا کہ اس معاہدے کے ذریعے ملک کی مجموعی اور غالب سیاسی قوت کے درمیان ایک نقطہ اتصال قائم کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے بے وقعت ہونے کا عمل اسی وقت شروع ہوا تھا جب اس معاہدے کے اہم فریق پیپلز پارٹی نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ پس پردہ مذاکرات شروع کیے تھے جو ایک این آراو پر منتج ہوئے تھے۔ بعد میں دونوں طرف سے ہونے والے حکومتی اقدامات اور یک طرفہ فیصلوں کی وجہ سے اس معاہدے کی روشنائی بتدریج کم ہوتی چلی گئی تھی۔ ہر فریق نے مشکل لمحوں میں دوسرے کو پکارا مگر ہر آواز صدا بہ صحرا ہو کر واپس لوٹ آتی رہی۔ سینیٹ کے چیرمین کا معرکہ وہ آخری لمحہ تھا جب مسلم لیگ ن نے میثاق جمہوریت کا حوالہ دیے بغیر پیپلزپارٹی کے چیرمین سینیٹ رضا ربانی کو اپنا نے کی پیشکش کی تھی مگر آصف علی زرداری نے یہ آواز سنی ان سنی کر دی تھی۔ انہوں نے رضا ربانی کی جگہ صادق سنجرانی کی حمایت کا فیصلہ کرکے اپنی سیاست کو بند گلی سے نکالنے کا سامان کیا۔ تاہم خوش آئند عمل یہ کہ خطرات اور افواہوں کے باجود جمہوریت کی گاڑی منزل کی جانب رواں دواں ہے اور سسٹم کی روانی ہی بہت سے مسائل کا حل ہے۔