عوامی فنڈز سے ذاتی تشہیر

346

عدالت عظمیٰ نے سرکاری اشتہارات میں سیاسی شخصیات کی تصاویر پر پابندی لگاکر مستحسن اقدام کیا ہے۔ کوئی منصوبہ شروع کیا جائے یا کوئی تکمیل پا جائے ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ بے نظیر، بلاول، شہباز، نواز یا وزیراعظم شاہد خاقان ہیں اور گیس، بجلی، پانی یا جو کچھ بھی فراہم کیا جارہاہے وہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ دیگر صوبوں میں بھی صورتحال یہی تھی قوم کے لاکھوں کروڑوں بلکہ مجموعی طور پر اربوں روپے صرف چند افراد کی تشہیر پر خرچ ہوجاتے بلکہ ضایع ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ نے شہباز شریف کو ہدایت کی تھی کہ اپنے نام چھپوانے ہیں اور تصویریں چھپوانی ہیں تو پیسے بھی اپنی جیب سے دیں۔ اور یہ بھی کریں کہ جو کام نہیں کیے ان کا بھی اشتہار بنائیں۔ بات صرف چند کروڑ کی نہیں ہے۔ سندھ کے سابق وزیر اطلاعات دو تین اشتہاری ایجنسیوں کے مالکان اور وزارت اطلاعات کے افسران اربوں روپے کے اشتہارات اور ان کی رقم کی خورد برد کے الزام میں گرفتار ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اربوں روپے صرف چند شخصیات کی تشہیر پر خرچ ہورہے تھے۔ ترقیاتی منصوبوں کے عزائم اور افتتاح و تکمیل پر اخبارات کو کروڑوں روپے کے اشتہارات دیے جاتے ہیں سال بھر میں ایسے اشتہارات کی رقم اربوں میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف ان اشتہاروں کی سالانہ رقم سے ایک یونیورسٹی قائم کی جاسکتی ہے اور ہر سال ایک یونیورسٹی قائم کرکے اشتہاروں کے جو ریٹ بڑھائے جاتے ہیں اس رقم کو جامعات کا نظام چلانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ قومی خزانے کی کھلی لوٹ مار تھی۔ اس پر پابندی لگانا اچھا قدم ہے اور اب جب کہ تمام صوبوں سے اشتہارات کا ریکارڈ بھی طلب کرلیاگیا ہے تو یہ رقم بھی وصول کی جائے اور حکومتوں کو پابند کیا جائے کہ اشتہارات کے بجٹ کو ختم نہ کیا جائے بلکہ اس بجٹ سے ہر سال ہر صوبے میں اور وفاق کے زیر انتظام ایک یونیورسٹی بنائی جائے اور جو ترقیاتی کام ہورہے ہیں ان کی تشہیر کام خود کرے گی۔ اچھا ہوگا تو شہرت ملے گی اور برا ہوگا تو بدنامی خود تعاقب کرے گی۔ اس حوالے سے بھی ایک تجویز کچھ عرصہ پہلے سامنے آئی تھی کہ کسی منصوبے کے افتتاح یا تکمیل کے موقع پر جو تختی لگائی جاتی ہے اس میں افتتاح کرنے والے وزیر یا عہدیدار کے نام کے ساتھ اس کے گھر کا پتا بھی لکھا جائے اور ٹھیکیدار کا نام پتا بھی۔ باقی کام عوام خود کریں گے۔ جن سڑکوں، پلوں اور عمارتوں کے افتتاح کے موقع پر کروڑوں روپے کے اشتہارات دیے جاتے ہیں ان کی خرابی کے وقت یہ وزرا نہیں ملتے۔ جب پتا لکھا ہوگا تو جوابدہی بھی کرنا پڑے گی۔