امن مذاکرات میں بھی امریکی دو رخی

288

دنیا بھر میں امن کا چیمپئن امریکا ہر جگہ دوہرے چہرے کے ساتھ سر گرم ہے۔ ایک طرف طالبان سے کسی قسم کے مذاکرات نہ کرنے کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف افغان حکام کے ذریعے مذاکرات پر راضی بھی ہے۔ شمالی کوریا کے معاملے میں تو حد کردی گئی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس ملک کو آگ میں جھونکنے اور تباہ کرنے کا اعلان کرچکے تھے اب مذاکرات کی بات کررہے ہیں۔ ایک ہی دن کے اخبارات میں دونوں خبریں ہیں۔ طالبان سے براہ راست مذاکرات نہ کرنے کا اعلان اور شمالی کوریا سے مذاکرات تک کوئی رعایت نہ کرنے کا اعلان۔ گویا مذاکرات شروع ہونے میں رعایتوں کا اتوار بازار لگادیا جائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکا خود کہیں بھی مذاکرات کو پنپنے نہیں دیتا۔ افغان مسئلے پر تو جب بھی مذاکرات کا آغاز ہوا یا اس کا سلسلہ شروع ہوا پاکستان یا افغانستان میں کوئی بڑا حملہ ہوجاتا۔ کبھی ملا اختر منصور کو ماردیا جاتا، کبھی پاک فوج کے کسی بڑے افسر کو نشانہ بنایا جاتا، کبھی معصوم عوام ہی پر ڈرون حملہ کردیا جاتا ہے۔ ایک بار پھر امریکی حکام کو افغانستان میں امن کی فکر ہے لیکن گزشتہ تجربات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی دن افغانستان یا پاکستان میں کوئی بڑا واقعہ ہوسکتا ہے۔ ہر مرتبہ مذاکرات کے موقع پر ایسے دھماکے یا واقعے کے نتیجے میں مذاکرات منسوخ یا معطل کردیے جاتے ہیں۔ امریکی سفارتکارنے طالبان سے مذاکرات نہ کرنے کی جو توجیح پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ شمالی کوریا کی طرح براہ راست مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ اس کا سبب کیا ہے۔ شمالی کوریا کو تو آپ آگ و خون میں نہلانے والے تھے، ملک کو تباہ کرنے والے تھے لیکن اچانک اس سے براہ راست مذاکرات پر راضی ہوگئے ہیں۔ ویسے یہ بات یقینی نہیں کہ امریکا کے صدر شمالی کوریا سے بھی مذاکرات ہونے دیں گے۔ لیکن فی الحال امریکی اعلانات یہی بتارہے ہیں اور افغانستان کے بارے میں دوہری پالیسی ہے۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان کی جانب سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا یقین حاصل کیا گیا ہے اور امریکا نے اس کے جواب میں پاکستان مخالف کارروائیوں میں ملوث افغان طالبان کے خلاف کارروائی کا یقین دلایا ہے۔ مزید یہ کہ کچھ طالبان لیڈروں کے سروں کی قیمتیں بھی مقرر کردی ہیں۔ اس پر سر دھنا جائے یا تالیاں بجائی جائیں اسے ڈپلومیسی کہا جائے یا منافقت۔ جب سروں کی قیمتیں مقرر کی جائیں گی، ایک دوسرے کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی یقین دہانیاں کرائی جائیں گی تو پھر مذاکرات کیسے، کس سے اور کیونکر ہوں گے۔ اسی لیے طالبان نے متنبہ کیا ہے کہ انڈونیشیا میں ہونے والے اجلاس میں بھی شرکت نہ کی جائے۔ امریکا نے شمالی کوریا کو تو دوسرے الفاظ میں رعایتوں کا یقین دلایا ہے کہ مذاکرات تک کوئی رعایت نہیں کی جائے گی جب کہ افغان مسئلے پر وہ صرف قتل و غارت کو مسئلے کا حل سمجھ رہا ہے۔ اگر یہی رویہ رہا تو افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے یا پر امن و مستحکم افغانستان کا خواب کبھی حقیقت نہیں بن سکے گا۔ ہمارے وزیراعظم نے کہا تو یہی ہے کہ پر امن اور مستحکم افغانستان خطے کی اقتصادی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا۔ اس میں جو فریق اہم کردار ادا کرسکتے ہیں وہ پاکستان طالبان اور امریکا ہیں۔ افغان حکومت تو کٹھ پتلی ہے طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کا مشورہ اور راستہ بھی اسی لیے دکھایا گیا ہے کہ جب چاہیں امن مذاکرات کو مسترد کیا جاسکے۔ آج کل ایرانی وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر اور امریکی نائب وزیر دفاع افغانستان کے دورے پر پہنچے ہیں۔ یہ دورے بھی یوں ہی سیر سپاٹے کی غرض سے تو نہیں ہوں گے۔ ایران نے اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے تاہم سمندر کے بارے میں کچھ نہیں کہا امریکا افغان طالبان کے خلاف کارروائی کی بات کررہاہے لیکن یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ ڈرون حملے نہیں ہوں گے۔ پاکستانی عوام تو امریکی ڈرون حملوں سے تنگ ہیں۔ یہ اتنے پر اسرار ہوتے ہیں کہ امریکی دعویٰ کرتے ہیں کہ افغان علاقے میں حملہ ہوا اور لوگ مرتے پاکستانی علاقے میں ہیں۔ پھر ہمارے میڈیا کو اس طرح کی خبر دی جاتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حملہ افغان علاقے میں ہوا لیکن پاکستانی سرپرستی میں کام کرنے والا کوئی گروہ نشانہ بن جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد کبھی طالبان، کبھی پاکستان اور کبھی امریکا مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیتا ہے۔ اور کبھی کبھی تو کوئی اعلان نہیں کرتا بس مذاکرات ختم ہوجاتے ہیں۔