رائیونڈ دھماکا

124

گزشتہ بدھ کو تبلیغی جماعت کے اجتماع کے حوالے سے معروف شہر رائے ونڈ میں زور دار دھماکا ہوا جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ خودکش حملہ تھا۔ اس میں 4 پولیس اہلکاروں سمیت 9 افراد شہید ہوگئے، متعدد زخمی ہیں۔ اس وقت سالانہ اجتماع بھی جاری تھا۔ پولیس حکام کا کہناہے کہ یہ حملہ پولیس پر تھا کیونکہ اطلاعات کے مطابق پولیس چوکی کو اس وقت نشانہ بنایاگیا جب اہلکاروں کی ڈیوٹی تبدیل ہورہی تھی۔ حملہ آور اجتماع تک جانا چاہ رہاتھا اور روکے جانے پر خودکو اڑالیا۔ اگر اجتماع تک پہنچ جاتا تو جانے کتنا جانی نقصان ہوتا۔ جن اہلکاروں نے اپنی جان قربان کرکے حملہ آور کو روکا وہ خراج عقیدت کے مستحق ہیں۔ عام طور پر ایسی تخریب کاری کا الزام پاکستانی طالبان پر عاید کردیا جاتا ہے یا وہ خود آگے بڑھ کر الزام اپنے سر لے لیتے ہیں۔ لیکن تبلیغی اجتماع پر ان کا حملہ قابل فہم نہیں ہے کیونکہ مسلک کے اعتبار سے طالبان اور تبلیغی جماعت کے ارکان ایک ہی ہیں۔ لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ دہشت گردوں اور تخریب کاروں کو دہشت اور تباہی پھیلانے کے لیے کوئی موقع درکار ہوتا ہے، انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اپنی جان سے گزرنے والوں کا مسلک یا عقیدہ کیا ہے۔ چنانچہ عام طور پر ایسے مقامات کا انتخاب کرتے ہیں جہاں عوام کا اجتماع ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچے۔ مذہبی اجتماعات پاکستان میں کئی مقامات پر ہوتے ہیں خواہ کسی مسلک کے ہوں۔ ان کے حفاظتی اقدامات بھی کیے جاتے ہیں لیکن شیطان کے پیروکار کوئی موقع تلاش کر ہی لیتے ہیں خواہ اسکول ہو یا کوئی درگاہ۔ حقیقت تو یہی ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی دین، ایمان نہیں ہوتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب امریکا کی طرف سے افغانستان میں دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہو تو اس کا بدلہ پاکستان میں لیا جاتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی توجہ بھی دوسرے معاملات پر لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں ہی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایک جلسہ عام میں دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے دہشت گردی اور مہنگائی کی کمر توڑ دی ہے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے عرصے سے کیے جارہے ہیں لیکن ان کی کمر نہیں ٹوٹی۔ دوسری طرف مہنگائی کی کمر توڑنے کا دعویٰ بھی ایسا ہے جسے سن کر عوام دانت کچکچاکر رہ جاتے ہیں۔ نواز شریف کو کیا معلوم کہ کمر مہنگائی کی نہیں عوام کی ٹوٹ گئی ہے مگر انہیں دعوؤں سے غرض۔مہنگائی کتنی بھی ہوجائے، حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اسی طرح دہشت گردی کا شکار بھی عام لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں پولیس اہلکار بھی شامل ہورہے ہیں۔