’’داعش‘‘ ایک اور گواہی

375

پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا خطے میں دہشت گردی بڑھانے اور پڑوسی ملکوں کو دھمکانے کے لیے افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کی مدد کررہا ہے۔ امریکی ہیلی کاپٹر داعش کے جنگجوؤں کو افغانستان کے مشرقی ضلعے ھسکہ مینہ دمیہ بالا کی جیل سے نامعلوم مقام کی طرف لے جاتے دیکھے گئے ہیں۔ افغانستان میں داعش کے پنپنے کی خبریں پہلے بھی ملتی رہی ہیں۔ روس، ایران، پاکستان اور افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی داعش کے نامعلوم سرپرستوں کی کبھی کھل کر تو کبھی ملفوف نشاندہی کرچکے ہیں۔ جواد ظریف نے کھل کر نامعلوم ہیلی کاپٹروں کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نامعلوم نہیں بلکہ امریکی ہیلی کاپٹر ہیں جو داعش کے ارکان کو محفوظ علاقوں کی طرف لے جاتے رہے ہیں۔ افغانستان کا صوبہ ننگر ہار اس وقت داعش کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ جس سے افغانستان کے ہمسایہ ملکوں ایران اور پاکستان میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ گزشتہ برس وسط ایشیائی ریاستوں سے ملحق جوزجان کے علاقے میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں محسوس کی گئی تھیں جس کے بعد سے وسط ایشیائی ریاستوں کے راستے روس بھی خطرے کی بُو محسوس کر رہا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ کے دورے سے پہلے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا تھا کہ افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کے تحفظات ہیں۔ الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام (داعش) مسلمان ملکوں کو تباہ وبرباد اور اسلام کو عالمگیر سطح پر بدنام کرنے کا جدید ہتھیار اور نیا بہانہ ہے۔ جنگ زدہ اور غیر ملکی افواج کے بوٹوں تلے کراہتے ہوئے عراق سے جنم لینے والی یہ تنظیم اس وقت تیزی سے اُبھر کر سامنے آئی جب اُسامہ بن لادن کی سرپرستی میں القاعدہ کا زور ٹوٹ رہا تھا اور یہ تنظیم مرکزیت سے محروم ہو رہی تھی۔ القاعدہ کے کمزور ہونے سے مسلمان معاشروں میں یہ امید بندھ چلی تھی کہ اس کے بعد مغرب بطور تہذیب اسلام کو بدنام کرنا اور مسلمان ملکوں کے اقتدار اعلیٰ سے چھیڑ چھاڑ کرنا ترک کر دے گا۔ امریکا اور یورپ نے القاعدہ کے نام پر ہی افغانستان اور عراق کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا اور دوسرے مسلمان ملکوں کے اندر نقب زنی کے لیے بھی القاعدہ کی موجودگی یا قومی وسائل پر القاعدہ کے قبضے کی تھیوری استعمال کی گئی تھی۔ القاعدہ کے کمزور ہونے سے یہ خیال پیدا ہونا فطری تھا کہ اب مغرب کے پاس مسلمان ملکوں میں مسلح مداخلت کا جواز بھی نہیں رہے گا۔ یہ محض خیالِ خام ہی نکلا کیوں کہ القاعدہ کی راکھ سے اچانک داعش کی چنگاری نمودار ہوئی اور یوں مسلمان دنیا میں جاری کھیل ایک نئے سائے کے تقاقب کی صورت جاری رہا۔
داعش کی کارروائیوں میں فرقہ وارانہ رنگ غالب رہا اور اس تنظیم نے اپنی کاررائیوں سے اسلام کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی مہم کو مزید رنگ آمیز اور موثر بنادیا۔ یہی نہیں بلکہ اس تنظیم نے القاعدہ کی کمزوری کے بعد مسلمان معاشروں اور ملکوں کو تاراج کرنے کا کارڈ مغرب کے ہاتھ سے گرنے ہی نہیں دیا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ پہلے امریکا اور اس کے اتحادی مسلمان ملکوں میں القاعدہ کے خطرے کے نام پر اپنا اثر رسوخ بڑھاتے تھے اب یہ کام داعش کے نام پر کیا جانا لگا۔ طاقتور فوج اور سول اسٹرکچر کے حامل ملک پاکستان، ترکی اور ایران اور سعودی عرب تو اس وار کو سہہ گئے مگر مشرق وسطیٰ میں کئی ملکوں کا حلیہ ہی بگڑ کر رہ گیا۔ اس صورت حال پر ’’تراشیدم، پرستیدم، شکستم‘‘ کی صورت حال ہی صادق آتی ہے۔ پہلے خود ہی داعش کو گھڑا گیا اسے مسلمان معاشروں کے تاروپود بکھیرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور آخر پر داعش کا قلع قمع کرنے کی مہم بھی خود ہی شروع کر دی گئی۔ چوں کہ یہ سارا کھیل مسلمان ملکوں میں جاری تھا اس لیے اس کا نقصان بھی مسلمانوں کو ہورہا تھا جیسا کہ شام اور عراق میں ہورہا ہے۔ مرکزیت سے محروم، عسکریت کے سایوں میں گھرے اور خانہ جنگی کا شکار عراق سے جنم لینے والی داعش کے پھلنے پھولنے اور پنپنے کے لیے انہی حالات کا شکار افغانستان تھا۔ افغانستان کو بنیاد بنا کر داعش گردوپیش کے ملکوں میں سرایت کرنے کے لیے کوشاں رہی ہے جو غیر ملکی طاقتوں کو ان ملکوں میں مداخلت کا جواز فراہم کرسکتی تھی۔ افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں داخل ہونے کوشش کی گئی تھی اور اسی بات کا بہانہ بنا کر امریکا قبائلی علاقوں میں مشترکہ زمینی کارروائی کی فرمائشیں کرتا رہا مگر پاکستان نے اس کی بھرپور مزاحمت کی۔ ایرانی وزیر خارجہ کے دوٹوک بیان کے بعد چار بااثر اور مضبوط دفاع کے حامل مسلمان ملکوں پاکستان، ایران، ترکی اور سعودی عرب کو باہمی مشاورت کے ساتھ داعش کے نام پر بڑے کھیل کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے گوکہ ان ملکوں کے باہمی اختلافات میں یہ ایک مشکل معاملہ ہے مگر گرم کیک کی طرح ٹکڑوں میں ہضم ہونے کے عمل کو روکنے کے لیے ان چار ملکوں کو یہ تلخ گھونٹ پینا ہی پڑے گا۔ بصورت دیگر سب اپنی اپنی باری پر اس شعر کی مانند شام اور عراق بن کر رہ جائیں گے۔
پُژ مردگئ گل پر ہنسی جب کوئی کلی
آوازدی خزاں نے کہ تو بھی نظر میں ہے