اگرچہ سندھ ہائی کورٹ میں یونیورسٹی ترمیمی بل 2018 کی منظوری کو چیلنج کردیا گیا۔ اس لیے امید ہے کہ عدالت اس بل پر عمل درآمد مقدمے کے فیصلے تک روک دے گی۔ توقع تو یہ بھی ہے کہ گورنر سندھ اس بل کو منظور کیے بغیر ہی واپس سندھ اسمبلی بھیج دیں گے۔ اس بل کی منظوری کے خلاف منگل کو سندھ ہائی کورٹ میں پاسبان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ بد نیتی کی بنیاد پر صوبہ کی 24 جامعات کو وزیر اعلیٰ سندھ کے ماتحت کردیا گیا صوبے کے شہری علاقوں میں تعلیم کے دراوزے بند کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جامعات کی خود مختاری چھین لی گئی سینڈیکیٹ کی 10 میں سے 8 نشستوں پر اب بیورو کریٹ تعینات ہوں گے اور تعلیمی ماحول سیاسی گڑھ بن جائے گا۔ یاد رہے کہ سندھ اسمبلی نے گزشتہ جمعہ کو اپوزیشن کے احتجاج اور مخالفت کے باوجود سرکاری جامعات میں چانسلر کے اختیارات گورنر سے وزیر اعلیٰ کو منتقل کرنے کا بل ’’سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹس لاز (ترمیمی) بل 2018‘‘ کثرت رائے سے منظور کیا اپوزیشن نے بل کی منظوری کے وقت احتجاج کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں اور ایوان سے واک آؤٹ کیا تھا۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی شاید یہ مجبوری ہے کہ وہ ہر کچھ وقت کے بعد متنازع معاملات کو سندھ اسمبلی میں لے جاکر انہیں صوبائی قانون کی گرفت میں کرنا چاہتی ہے لیکن اسے ہر مرتبہ ’’منہ کی کھانی پڑتی ہے‘‘۔ گزشتہ سال جولائی میں سندھ اسمبلی سے قومی احتساب بیورو کو کام کرنے سے روکنے کا بل منظور کرایا تھا۔ مگر صرف ایک ماہ بعد ہی یعنی اگست میں سندھ ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو کو صوبے میں کام جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے بدعنوانی میں ملوث ارکان اسمبلی اور سرکاری افسران کے ساتھ اسمبلی میں صوبائی قانون کی حمایت کرنے والے اراکین کی فہرست طلب کرلی تھی۔
اب محض 8 ماہ کے وقفے کے بعد سندھ اسمبلی میں موجود سرکاری اراکین نے ترمیمی یونیورسٹی بل منظور کرواکر براہ راست اعلیٰ تعلیمی نظام پر ’’ہاتھ مارنے‘‘ کی کوشش کی۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ صوبائی حکومت جامعات میں اپنے پسندیدہ افراد کو اپنے روایتی طریقہ کار کے تحت کھپا کر آئندہ انتخابات سے قبل اپنا ہدف پورا کرنا چاہتی ہے تاکہ پورے سندھ کا تعلیمی نظام ایک جیسا ہوجائے۔ پرائمری اسکولوں اور جامعات کے نظام میں جماعتوں کے فرق کے سوا کوئی اور فرق نہ رہے۔ جامعات کے اساتذہ اور دیگر تعلیمی اداروں کے استادوں میں تفریق ختم ہوجائے۔
اور وزیراعلیٰ سمیت تمام وزراء کی پہنچ یونیورسٹیز تک بھی ہوسکے۔ جسے چاہے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی جاسکے جس کسی ’’سائیں‘‘ کو ماسٹر اور بیچلر کی ڈگریوں سے بھی نوازنا چاہے نوازا جاسکے۔ ممکن ہے کہ سی ایم اپنے اختیارات میں بھی ترمیم کروا کر اسکولز ٹیچر کو یونیورسٹیز میں تبادلہ کرنے کا اختیار بھی حاصل کرلیں۔
یونیورسٹی ترمیمی بل کو منظور کروانے کے صوبائی حکومت کے اس اقدام پر حیرت اس لیے ہورہی ہے کہ موجودہ سی ایم مراد علی شاہ سے ایسے کسی قدم کی امید نہیں تھی کیوں کہ وہ نہ صرف قابل انجینئر ہیں بلکہ ہر سطح کے تعلیمی نظام کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ کراچی اور اندرون سندھ کے تعلیمی ماحول سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کیوں کہ ان کی بیش تر تعلیم کراچی کی ہے۔ خراب تعلیمی اداروں کی وجہ سے مراد علی شاہ ہی کیا کئی حکمرانوں کے بچے اپنے آبائی علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ سرکار کی نگرانی میں قائم پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی حالت تو اندرون سندھ اور شہروں میں ایک جیسی ہے۔ صوبائی حکومت بلا تفریق ایک ہی جیسا ماحول طالب علموں کو فراہم کرتی ہے۔
یونیورسٹیز ترمیمی بل 2018 کی منظوری کے خلاف جامعہ کراچی کے اساتذہ، طلبہ اور ملازمین احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے جمعرات کو آرٹس لابی میں ایک بڑے احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا۔ جس میں اساتذہ، طلبہ اور ملازمین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ آج کے اخبارات میں شائع شدہ سندھ کے وزیر نثار کھوڑو کا بیان ہے کہ جس میں انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ترمیمی بل بالکل درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو وزیراعلیٰ سندھ اساتذہ سے ملاقات کرکے ترمیمی بل کی واپسی کا وعدہ کرتے ہیں اور دوسری جانب سے ان کے وزراء کے بیانات اس بات کو ثابت کررہے ہیں وہ اس بل میں کوئی ترمیم کے لیے تیار نہیں ہیں۔ رہنماؤں نے مزید کہا کہ کل بھی ہم نے ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف آواز بلند کی تھی جب کہ اس کے کرتا دھرتا اردو بولنے والے تھے۔ لہٰذا اس کو لسانی مسئلہ نہ بنایا جائے کل بھی ہم نے تعلیم دشمن اور جامعات کی خودمختاری کو سلب کرنے والے قوانین کے خلاف جدوجہد کی تھی اور آج بھی ہم ان قوانین کو مکمل مسترد کرتے ہیں۔
راقم الحروف یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ تمام حالات جاننے کے باوجود این ای ڈی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل وزیراعلیٰ انجینئر مرادعلی شاہ کیوں کر ایسا کوئی اقدام کرسکتے ہیں جس سے اعلیٰ تعلیمی نظام خراب ہو؟ مجھے یقین ہے کہ اگر آج مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ کے بجائے این ای ڈی کے طالب علم ہوتے تو وہ ضرور اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ مل کر وہی کرتے جو جامعہ کراچی کے اساتذہ و طالب علم آج کررہے ہیں۔ مگر افسوس آج تو وہ این ای ڈی میں ہونے والے اس طرح کے احتجاجی مظاہروں کو ان کی منصوبہ بندی سے قبل ہی روکنے کی ’’غیر جمہوری صلاحیت‘‘ رکھتے ہیں۔ براہ راست نہیں اپنے کسی ہم جماعت کے ذریعے۔۔۔ تب ہی تو جامعہ کراچی کی بغل میں موجود جامعہ این ای ڈی سے اس بل کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے۔ کیا واقعی انجینئرنگ کے طالب علم سیاست کو نہیں اپنے حق کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی بھول چکے ہیں ؟۔