یہ امر قابل ذکر نہیں ہوتا کہ کسی پیر صاحب یا رہنما کو خوش آمدید کہنے والوں کی تعداد کتنی تھی اور یہ اطلاع بھی کوئی معنی نہیں رکھتی کہ اجتماع کو جلسہ کہاجائے یا جلسی کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی جائے۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ پیر صاحب یا رہنما نے اپنے خطاب میں کیا کہا، اپنے ماننے والوں کو کیا پیغام دیا اور سننے والوں کو کس حد تک متاثر کیا۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی آمد پر اہل بہاولپور نے تہہ دل سے خوش آمدید کہا اور ان کی تقاریر کو بھی خوش دلی سے قبول کیا۔ بعض سیاسی مبصرین مریم نواز اور بے نظیر بھٹو کا موازنہ کرکے سماعت خراشی کرتے رہتے ہیں۔ حالاں کہ دونوں میں جو قدر مشترک پائی جاتی ہے وہی اہمیت رکھتی ہے، وہی جذبہ انہیں شعلہ جوالا بنادیتا ہے۔ بھٹو مرحوم کو فوج نے فارغ کیا اور عدالت عظمیٰ نے فارغ البال کردیا۔ میاں نواز شریف کو پہلے فوج نے فارغ کیا تھا اور اب عدالت عظمیٰ نے وزارت عظمیٰ کے ایوان ہی سے نہیں پارٹی کے ایوان اقتدار سے بھی بے دخل کردیا ہے۔ بھٹو مرحوم کو دنیا سے نکال دیا گیا تھا مگر وہ عوام کے دلوں میں زندہ رہے، میاں نواز شریف بھی عوام کے دلوں میں موجود ہیں، کرسی پر براجمان ہونے والے سے دل میں براجمان ہونے والا زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور سیاست طاقت کا کھیل ہے۔ عوامی طاقت ایک ایسا ہتھیار ہے جو نہ کبھی کند ہوتا ہے نہ اس کا نشانہ خطا ہوتا ہے۔
الیکٹرونک میڈیا پر میاں نواز شریف کے مخالف اینکرز کا سارا زور بیان اور استدلال یہ ہے کہ میاں نواز شریف عدلیہ دشمنی پر کمربستہ ہیں۔ ہم اکثر اپنے کالموں میں کہہ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ فوج اور عدلیہ مخالفت کے معاملے میں یک جان دو قالب ہیں۔ دونوں کی زبانوں نے سب سے پہلے آمریت کی گھٹی چاٹی تھی، دونوں ہی آمریت کی پیداوار ہیں، دونوں ہی آمریت کا دودھ پی کر پروان چڑھی ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو یا نواز لیگ ہو دونوں کا سیاسی منشور خود سری اور سرکشی ہے۔ پاؤں پڑنا اور گلے پڑنا دونوں کی خصلت ہے، فطرت ثانیہ ہے، دونوں جماعتوں کے قائد ریاست کے بجائے اپنی حکومت کو اہمیت دیتے ہیں اور ریاست کے بجائے اپنی حکومت کو مضبوط کرتے ہیں۔ ان کی قوم ان کا خاندان ہے ان کا ملک ان کی جاگیر ہے۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ انگریزوں کے خانہ زادوں کی اولاد ہم پر مسلط ہے۔ ملک کے سیاہ سفید کی مالک بنی بیٹھی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان کے بزرگوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے پاس رہن رکھی ہوئی اپنی زمین اور جائداد پر قابض ہونے اوروں کی زمینیں ہتھیانے کے لیے مسلم لیگ میں شمولیت کی تھی اور یہی سوچ ان کو وراثت میں ملی ہے۔ یہ طبقہ پاکستان کے تمام وسائل پر اپنا حق سمجھتا ہے۔ اہل بہاولپور نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی تقاریر کو بہت غور سے سنا اور بہت متاثر ہوئے۔ خاص کر مریم نواز شریف کی تقریر سے تو بہت محظوظ ہوئے۔ مریم نواز نے عوام سے سوال کیا کہ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ہمارے مقابل آصف علی زرداری صف آرا ہیں مگر ہتھیار عمران خان نے ڈال دیے ہیں۔ حالات اور واقعات تو یہی بتارہے ہیں کہ مقابلہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہی ہوگا۔ تحریک انصاف تین میں ہے نہ تیرا میں۔
سنا تھا بعض لوگ خواہ مخواہ سید بن جاتے ہیں مگر اب یہ دیکھ رہے ہیں کہ بعض لوگ خواہ مخواہ ہی خان بن جاتے ہیں۔ بعض افراد نے مریم نواز کے استفسار پر بڑا سفاک تبصرہ کیا ہے جو دل آزار ہی نہیں ہماری تہذیب کے بھی منافی ہے۔ کیوں کہ ہتھیار ڈالنا نیازیوں کی روایت نہیں۔ سقوط ڈھاکا کو بھلانے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ہتھیار ڈالنے والے اور اس کے قبیلے پر کوئی تبصرہ کریں۔ البتہ مریم نواز کا یہ کہنا بڑا معنی خیز اور فکر انگیز ہے کہ عمران خان ہم باور کرلیتے ہیں کہ تم نہ بکتے ہو نہ جھکتے ہو۔ جن کی کمر میں موچ اور گردن میں سریا ہو وہ جھکنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں اور جو چیز اپنی قدر کھو دے اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ صرف لم لیٹ ہی ہوسکتے ہیں اور عمران خان تم آصف علی زرداری کے سامنے لیٹ چکے ہو۔ سو، تمہارے بارے میں کچھ کہنا سماعت خراشی کے سوا کچھ نہیں۔