ٹرمپ انتظامیہ کا نیا چہرہ بے نقاب

491

صدر ٹرمپ کے اپنے خاص انداز سے ٹیوٹر پر وزیر خارجہ ریکس ٹلر سن کی اچانک برطرفی کے بعد ان کے عہدے پر سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپیو کے تقرر اور مائیک پومپیو کی جگہ جینا ہاسپیل کی سی آئی اے کی سربراہ کی حیثیت سے نامزدگی کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کا نیا چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔
ریکس ٹلرسن کی جنہوں نے ٹرمپ کو احمق قرار دیا تھا، صدر کے ساتھ کشیدگی اسی وقت سے شروع ہوگئی تھی جب ٹلرسن نے امریکا کی داخلی سیاست میں مداخلت پر روس کے خلاف تادیبی پابندیاں عاید کرنے پر زور دیا تھا لیکن ٹرمپ نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ٹرمپ کی مخالفت کی بناء پر ان شکوک و شبہات کو تقویت پہنچی تھی کہ صدارتی انتخاب کے دوران ٹرمپ اور روسیوں کے درمیان گٹھ جوڑ تھا۔ ٹرمپ نے اس تاثر پر پردہ ڈالنے کے لیے ایران کے جوہری سمجھوتے پر ٹلرسن سے اختلافات کو اچھالا تھا اور ٹرمپ نے برطرفی کی وجہ بھی یہی بتائی ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری سمجھوتے کو منسوخ کرنے کے بارے میں نئے وزیر خارجہ مائیک پومپیو ان کے ہم خیال ہیں۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ مائیک پومپیو نہ صرف ایران کے جوہری سمجھوتے کے سخت خلاف ہیں بلکہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کے بھی زبردست حامی ہیں۔ اب تک ریکس ٹلرسن کی وجہ سے شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ محاذ آرائی نے زیادہ جارحانہ انداز اختیار نہیں کیا تھا لیکن اب مائیک پومپیو کے وزیر خارجہ کے عہدے پر نامزدگی کے بعد خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی رو نما ہوگی۔
مائیک پومپیو جو چار بار کینسس سے ایوانِ نمائندگان کے رکن منتخب ہو چکے ہیں، صدر ٹرمپ کے قریبی حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ایران کے جوہری سمجھوتے کے اتنے ہی مخالف ہیں جتنے کہ ٹرمپ ہیں بلکہ ٹرمپ سے بڑھ کر وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کے لیے جارحانہ اقدامات کے حامی ہیں۔ اس معاملہ میں وہ ٹرمپ سے زیادہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے موقف کے قریب ہیں۔ ایران دشمنی کی وجہ سے اسرائیل اور سعودی عرب، مائیک پومپیو کے تقرر پر بے حد خوش ہیں۔ لیکن امریکا کے مسلمان مائیک پومپیو کو اسلام دشمن قرار دیتے ہیں اور اسی بناء پر امریکا کے مسلمانوں کی تنظیم CAIR نے مائیک پومپیو کی وزیر خارجہ کے عہدے پر نامزدگی کی مخالفت کی ہے۔ مائیک پومپیو پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ امریکا کی اسلام دشمن اور نسل پرست تنظیم ACT کے قریب ہیں۔
بہت سے امریکی اس بات پر خوش ہیں کہ صدر ٹرمپ نے مائیک پومپیو کی جگہ پہلی بار ایک خاتون کو سی آئی اے کی سربراہ مقرر کیا ہے، لیکن انہیں غالباً علم نہیں کہ یہ نئی سربراہ، جینا ہاسپیل کون خاتون ہیں۔ انہیں صدر ٹرمپ نے پچھلے سال سی آئی اے کی نائب سربراہ کے عہدے پر مقرر کیا تھا۔ یہ تیس سال سے زیادہ عرصہ سے سی آئی اے سے منسلک رہی ہیں اور مشہور ہے کہ یہ خفیہ قید خانوں میں قیدیوں سے پوچھ گچھ کے دوران ایذا رسانی کے نہایت پر تشدد پروگرام کی بانی رہی ہیں۔ سی آئی اے میں ان کے پرانے ساتھیوں نے انکشاف کیا ہے کہ جینا ہاسپیل ہی کی نگرانی میں خفیہ جیل میں القاعدہ کے مشتبہ قیدیوں ابو زبیدہ اور عبد الرحیم الناشری کو واٹر بورڈنگ کی بہیمانہ ایذا رسانی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جینا ہاسپیل کی نگرانی میں ابو زبیدہ کو ایک ماہ میں 83 بار واٹر بورڈنگ کی ایذا دی گئی۔ انہیں ایک بکس میں بند رکھا گیا اور انہیں نیند سے محروم رکھا گیا۔ ابو زبیدہ کا سر اس بری طرح سے دیوار سے ٹکرایا گیا کہ وہ ایک آنکھ کی بینائی کھو بیٹھے۔ اس سے پہلے 2002 میں جینا ہاسپیل تھائی لینڈ میں بلیک باکس نامی پُرتشدد پوچھ گچھ کی نگران رہی ہیں۔ پچھلے دنوں نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا تھا کہ جینا ہاسپیل نے قیدیوں سے پوچھ گچھ کے دوران واٹر بورڈنگ کی ویڈیو تلف کر دی تھیں تاکہ اس نوعیت کی ایذا رسانی کی کوئی شہادت باقی نہ رہے۔ جینا ہاسپیل کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی ایذا رسانی کے دوران ان کے چہرے پر طمانیت سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس تشدد سے لطف اٹھا رہی ہیں۔ ایذا رسانی کے بارے میں امریکی سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد یورپ کے انسانی حقوق کے مرکز نے جرمنی کے پبلک پراسیکیوٹر جنرل سے مطالبہ کیا تھا کہ جینا ہاسپیل کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جائیں۔ امریکی سول رائٹس یونین کے جمیل جعفر نے جنیا ہسپیل کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا ہے اور ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جینا ہاسپیل اور مائیک پومپیو دونوں، صدر ٹرمپ سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ گوانتا ناموبے کا عقوبت خانہ بند نہ جائے۔ گزشتہ جنوری میں اسٹیٹ آف دی نیشن کے خطاب میں ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے وزیر دفاع جنرل میتیس کو ہدایت کی ہے کہ گوانتا ناموبے کا قید خانہ کھلا رکھا جائے تاکہ گرفتار کیے جانے والے دہشت گردوں کو وہاں بند کیا جاسکے۔ ریپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے اعلان کیا ہے کہ وہ سینیٹ میں جینا ہاسپیل اور مائیک پومپیو کی توثیق کی مخالفت کریں گے۔ ان کا کہنا ہے ان دونوں نے عراق کی جنگ کی زبردست حمایت کی تھی اور دونوں ایران کے خلاف جنگ کے خواہاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مائیک پومپیو کے وزیر خارجہ مقرر ہونے کے بعد شدید خطرہ ہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسی میں سخت گیری بڑھے گی، محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا اور ایران کے ساتھ معرکہ آرائی، جنگ کی سرحدوں کو چھو لے گی۔
اس بات کا بھی شدید خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کی شہہ پر امریکا بھر پور طریقہ سے ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے شام کی خانہ جنگی میں داخل ہو۔ اور اسی کے ساتھ اسرائیل بھی اس خانہ جنگی میں کھلم کھلا کود پڑے۔ اس کی متوقع مداخلت کے دو مقاصد ہوں گے۔ اول شام میں ایران کا اثر توڑا جائے دوم جولان کی پہاڑیوں پر اپنے پچاس سالہ تسلط کا دفاع کیا جاسکے۔ اسرائیل کے لیے جولان کی پہاڑیوں پر تسلط اس بناء پر بے حد اہم ہے کہ یہ دریائے اردن کا منبع ہے جس پر اسرائیل کی زراعت کا دارو مدار ہے۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل میک ماسٹر بھی جلد استعفا دے دیں اور ان کی جگہ اسرائیلی نژاد 56سالہ خاتون، سفرا کاٹز مقرر کی جائیں۔ سفرا کاٹز تل ابیب کے قریب ہولون کے قصبہ میں پیدا ہوئی تھیں اور چھ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ امریکا منتقل ہو گئی تھیں۔ اس وقت یہ ٹیکنالوجی کی مشہور کمپنی ORACLE کی نائب سربراہ ہیں، انتخابی مہم کے دوران یہ ٹرمپ کی عبوری ٹیم میں شامل تھیں۔ سفرا کاٹز کے ساتھ اس عہدے کے لیے اقوام متحدہ میں سابق امریکی سفیر جان بولٹن کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ جان بولٹن اپنی مسلم دشمنی کی وجہ سے مشہور ہیں اور اسلام دشمن تحریک ’’کاونٹر جہاد‘‘ سے منسلک ہیں۔ یہ جان بولٹن وہی ہیں جنہوں نے عراق کی جنگ سے پہلے بڑھ چڑھ کر دعویٰ کیا تھا کہ صدام حسین کے پاس جوہری اسلحہ ہے۔ جان بولٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سفارت کاری پر یقین نہیں رکھتے بلکہ امریکا کی طاقت کے بل پر امریکا کی دھاک بٹھانے کے حامی ہیں۔ غرض اب ایک سال گزرنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کا نیا اور اصلی چہرہ سامنے آرہا ہے۔ ایک جھلک تو پومپیو اور جینا ہاسپیل کے تقرر کی صورت میں سامنے آگئی ہے اور ابھی اور نئے چہرے سامنے آنے والے ہیں۔