کراچی کے رفاہی پلاٹوں پر قبضے

296

عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں رفاہی پلاٹوں پر قبضے سے متعلق سماعت کے دوران میں جسٹس گلزار احمد اور دیگرپر مشتمل لارجر بینچ نے حکم جاری کیا ہے کہ کراچی کے پلاٹوں پر ناجائز قبضے فوراً ختم کرائے جائیں۔ عدالت میں ڈائریکٹر جنرل ادارہ ترقیات سمیع صدیقی اور میئر کراچی وسیم اختر سمیت دیگر حکام پیش ہوئے۔ اس موقع پر سمیع صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 17سو سے زاید تجاوزات کا خاتمہ کردیا ہے۔ اس پر جناب جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ قبضہ تو 40ہزار سے زاید پلاٹوں پر تھا، اس کا کیا ہوا؟ جسٹس گلزار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گلستان جوہر میں جگہ جگہ قبضے کیے گئے ہیں ، آپ کیا کررہے ہیں؟ عدالت نے ادارہ ترقیات کراچی کے ڈائریکٹر جنرل کو بتایا کہ سماما شاپنگ مال کے سامنے پارک کی جگہ پر فرنیچر مارکیٹ بن گئی، ابھی جا کر گروائیں، یہ کام کیسے ہو ہم نہیں جانتے، یہ آپ کی ذمے داری ہے ۔یہ حکم گزشتہ جمعہ کو دیا گیا تھا۔ معلوم نہیں اس پر کس حد تک عمل ہوا۔ لیکن یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے کہ جن اداروں کا کام تجاوزات کو روکنا ہے وہ یا تو بے خبر ہیں یا اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ جب عدالت عظمیٰ کے جج شہر کراچی کی صورت حال سے باخبر ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ادارہ ترقیات کے افسر اعلیٰ اور کراچی کے میئر صاحب کے علم میں یہ بات نہ ہو۔ اگر یہ لوگ بے خبر ہیں تو ان کو اپنے منصب پر جمے رہنے کا کوئی حق نہیں اورنہ صرف برطرفی بلکہ کڑی سزا بھی ملنی چاہیے۔ اب اگر نیب کو تحقیقات کا حکم دیا جائے تو حکومت سندھ بھی چیخے گی اور اسے صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا جائے گا۔ یعنی خود بھی کچھ نہ کریں اور کسی دوسرے کو بھی نہ کرنے دیں۔ رفاہی پلاٹوں یا دوسروں کی زمینوں پر قبضے میں کوئی ایک ادارہ ملوث نہیں ہے بلکہ اس میں حکمران بھی ملوث ہوتے ہیں۔ کراچی ایک ایسا لاوارث شہر بن گیا ہے جسے سب لوٹ کر کھا رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ایک اور مثال دی ہے کہ خالی پلاٹ پر پہلے گدھا گاڑی کھڑی کی جاتی ہے پھر جھنڈا لگایا جاتا ہے۔ اس کے بعد جھونپڑی ڈال کر قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کی باخبری قابل تحسین ہے اور ذمے داروں کی بے خبری قابل مذمت ۔ لیکن کیا یہ بے خبر ہوتے ہیں؟ کوئی زرداری ہاؤس، 70کلفٹن یا وزیر اعلیٰ کے گھر کے باہر تو جھنڈا لگا کر اور قبضہ کر کے دکھائے ۔ فوراً تمام ادارے متحرک ہو جائیں گے۔ کراچی کی اسکیم 33میں ایک عرصے تک رہائشی پلاٹوں پر قبضے رہے اور قابضین نے پکے مکانات تک بنا لیے۔ کوئٹہ ٹاؤن پر قبضہ بڑی مشکل سے چھڑایا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب کہیں قبضہ ہو رہا ہوتا ہے تو پولیس سے لے کر بلدیہ اور کے ڈی اے تک ہر ایک کو بھتا ملتا ہے۔ اب سماما شاپنگ مال کے سامنے فرنیچر مارکیٹ ایک دن میں تو نہیں بن گئی ہوگی۔ کراچی کے سابق میئر نعمت اللہ خان نے ایسے کئی رفاہی پلاٹوں اورپارکوں کی نشاندہی کی تھی جن پر قبضے ہوگئے۔ وہ عدالت تک گئے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ عدالت میں شہر کے میئر وسیم اختر بھی موجود تھے جن کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے اور چائنا کٹنگ، زمینوں پرقبضے میں ایم کیو ایم سب سے آگے تھی اور اب بھی ہوگی۔ کراچی کو لوٹنے میں ایم کیو ایم کا کوئی مقابل نہ تھا۔ اب تتر بتر ہوگئی تو دوسروں کو موقع ملے گا۔ کراچی تو ایسا شہر ہے جہاں کراچی کے باہر سے آنے والوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھویا۔ اندرون سندھ کی تنظیمیں بھی خالی پلاٹ پر اپنا جھنڈا گاڑ دیتی تھیں اور پولیس میں بھی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ ان کو ہٹا سکیں۔ الطاف حسین کے حکم پر کراچی کا میئر بننے والے مصطفی کمال کی کارکردگی کے جھنڈے پنجاب تک میں گڑ گئے تھے۔ لیکن انہوں نے بھی اپنی پارٹی کی چائنا کٹنگ مافیا کے کام میں مداخلت نہیں کی۔ آج وہ کراچی کی خدمت کا دعویٰ لے کر اپنی پارٹی بنا کے بیٹھ گئے ہیں اور اب انہیں الطاف حسین میں ساری خرابیاں نظر آرہی ہیں۔ موجودہ میئر وسیم اختر نے عدالت میں چائنا کٹنگ تعمیرات پر قبضہ نہ کرانے میں ناکامی کا اعتراف کرلیا۔ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا ہے کہ ایسی تعمیرات بلا تفریق مسمار کر کے اراضی کو اس کی اصل حالت میں بحال کیا جائے۔ لیکن ادارہ ترقیات کراچی ان 4ہزار پلاٹوں پر قبضے کا حساب تو پیش کرے کہ اب تک کیا کیا۔ اب دیکھنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر کس حد تک عمل ہوتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تو سیکورٹی کے نام پر سڑکوں پر قبضے کے خلاف بھی حکم جاری کیا ہوا ہے اور اطلاعات کے مطابق ماڈل ٹاؤن لاہور میں تو اس پر عمل ہوگیا ہے۔ کراچی کی باری جانے کب آئے گی۔