اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وطن عزیز کی اکثر سیاسی جماعتوں نے آمریت سے زیادہ جمہوریت کو رسوا کیا ہے۔ اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہلانے والے لیڈر دراصل اپنی سیاسی جماعتوں کے آمر ہیں۔ وہ اپنے پارٹیوں کو ڈکٹیٹر کی حیثیت ہی سے چلایا کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز سمیت اس کے سب ہی دھڑوں کو دیکھ لیں وہاں ’’ون مین شو‘‘ برسوں سے چل رہا ہے۔ یہی حال جماعت اسلامی کے سوا تمام جماعتوں کا ہے۔ پیپلز پارٹی اور نیشنل پیپلز پارٹی بھی آمر نما سیاسی لیڈر کے کنٹرول میں چل رہی ہے۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کے مورثی لیڈرز کو خدشہ رہتا ہے کہ اگر پارٹی کو جمہوری طرز پر چلایا تو ان کی لیڈری کا تختہ ہوجائے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی میں آصف زرداری نے اپنے بیٹے بلاول زرداری کو اس لیے چیئرمین بنایا کہ انہوں نے بے نظیر کے 27 دسمبر 2007 کو قتل کے تیسرے دن ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ بلاول چوں کہ ابھی پڑھ رہے ہیں جیسے ہی تعلیم مکمل کرلیں گے انہیں پارٹی کا سربراہ بنادیا جائے گا۔ بلاول کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنانا آصف علی زرداری کی مجبوری تھی کیوں کہ پیپلز پارٹی اب بھی اس بھٹو کی پارٹی کہلاتی ہے جن کی سزائے موت کو 35 سال ہوچکے ہیں۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی مستحکم ہوئی تھی اسی طرح بے نظیر کے قتل کے بعد بھی لوگوں میں ہمدردی پیدا ہونے سے اس کا استحکام ہوا۔ مگر یہ بے نظیر کے خاندان سے نکل کر ان کے شوہر کے خاندان میں ضم ہوگئی جس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ بھٹو کے خاندان کا کوئی باقی نہیں رہا تھا۔ فرکھ
پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ نواز بھی مورثی پارٹی ہے خیال تھا کہ نواز شریف اسے جمہوری طریقے سے آگے بڑھائیں گے مگر اپنی نااہلی کے بعد انہوں نے اپنے بھائی شہباز شریف کو پارٹی کا صدر بنا کر یہ ثابت کیا کہ وہ اسے اپنی گرفت ہی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ میری نظر میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں مورثی نظام کی ایک وجہ ان جماعتوں میں موجود نامور مگر ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ ٹائپ شخصیات ہیں۔ جن میں اپنے لیڈر کی غلط بات کی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ نواز شریف کے ہاتھ سے وزارت عظمیٰ کے بعد پارٹی صدارت بھی گئی اور پھر سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں ہونے والی شکست سے تو ایسا لگا کہ ان کی یاداشت بھی متاثر ہوچکی ہے۔ تب ہی انہوں نے 16 مارچ کو ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ: ’’یہ سنجرانی کون ہے، سینیٹر بنتے ہی چیئرمین سینیٹ بھی بن گیا‘‘۔
حالاں کہ صادق سنجرانی کے سیاسی کیریئر پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ 1998 میں پہلی بار اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی سیکرٹریٹ ٹیم کے کوآرڈینیٹر مقرر کیے گئے جو جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اکتوبر 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے تک رہے۔
پرویز مشرف کا دور ختم ہوا تو سال 2008 میں صادق سنجرانی پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے شکایات سیل کے انچارج مقرر ہوگئے۔ اور اس عہدے پر 2013 تک رہے۔ الیکشن 2013 میں دوبارہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہونے پر بلوچستان کے وزیر اعلی ثناء اللہ خان زہری کے معاون خصوصی مقرر کردیے گئے۔ مسلم لیگ سے اتنی قربتوں اور مسلم لیگ کی اس قدر نوازشوں کے باوجود اگر میاں شریف یہ سوال کریں کہ یہ صادق سنجرانی کون ہے تو ان کی ذہنی حالت پر شک ہونا غلط نہ ہوگا۔
صادق سنجرانی کو پہچاننے سے انکار پر یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ نواز شریف اپنی پارٹی کے معاملات سے بھی دور ہی رہا کرتے تھے۔ اگر یہی سچ ہے تو یہ مسلم لیگ کی خوش قسمتی ہوگی کہ نواز شریف جیسے صدر سے اس کی اب جان چھوٹ گئی ہے۔ مگر بہتر ہوتا کہ ان کے خاندان سے ہی دوریاں ہوجاتیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تو سینیٹ کے 3 مارچ کو ہونے والے الیکشن میں اپنا ووٹ نہ ڈال کر یہ ثابت بھی کیا ہے۔ اس بارے میں پی ٹی آئی کے رہنما نے پولنگ کے روز ہی یہ کہنا تھا کہ وہ ذاتی مصروفیت کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ لیکن بعد میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے عمران خان نے اپنی پارٹی کے بارہ سینیٹرز کے ووٹ صادق سنجرانی کو دے کر شاید اپنی سیاست اور اپنی پارٹی کا مذاق ہی تو اڑایا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس انتخاب کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ ملکر ایک آزاد امیدوار صادق سنجرانی کو کامیاب کرانے سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ چمپئن سیاست دان آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اختیار۔ مگر پھر بھی یہ لوگ دعوے کرتے ہیں کہ: ’’ہم جمہوریت پسند ہیں‘‘ اگر ایسے جمہوریت پسند ہوں گے تو آئندہ جمہوری دور کس کا اور کیسا ہوگا اس کا اندازہ قوم لگا چکی ہوگی۔