مشیر خزانہ کی عجیب و غریب منطق

387

پاکستان میں وزارتیں اور مشاورتیں ایسے تقسیم کی جاتی ہیں جیسے نانا جان کی فاتحہ کے چنے۔ آج کل خزانے اور اقتصادی امور سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر مفتاح اسماعیل نے ایک دن کہا کہ جو بھی پی آئی اے کا خسارہ پورا کردے گا اسے اسٹیل مل مفت میں دے دیں گے۔ اس پر ہنگامے کا خدشہ ہوا تو کہہ دیا میں نے تو مذاق میں یہ بات کہی تھی۔ مفتاح اسماعیل صاحب یہ قومی اداروں کا معاملہ ہے۔ ٹافیاں بیچنا اور قومی اداروں کو چلانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ ایک تو پاکستان اسٹیل کو حکومت نے خود تباہ کیا اس پر اس کو مذاق کا عنوان بنایا جارہا ہے۔ حکومت صرف اپنے دور میں پاکستان اسٹیل کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا جائزہ لے تو پتا چلے گا کہ کس طرح اس قومی ادارے کو تباہ کیا گیا۔ مفتاح اسماعیل صاحب نے اب فرمایا ہے کہ نقصان زدہ قومی سرکاری اداروں کی نج کاری ضروری ہے اور اس کے بعد اس میں انسانی ہمدردی ڈالنے کے لیے تجویز دی کہ اس نج کاری سے حاصل ہونے والی آمدنی صحت اور تعلیم کی بہتری کے منصوبوں پر خرچ ہونی چاہیے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مشیر خزانہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں عوام تک پہنچانے کے لیے بے چین ہیں۔ بس جس دن پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل فروخت ہوگئے اس دن سے عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں ملنا شروع ہو جائیں گی۔ اگر ایسا ہوتا تو مشیر خزانہ بتائیں کہ پی ٹی سی ایل کی نج کاری کے نتیجے میں کتنے لوگوں کو کیا کیا طبی اور تعلیمی سہولتیں دی گئیں۔ کے ای ایس سی کی نج کاری سے کتنے پیسے حکومت کو ملے۔ ملے بھی یا نہیں، کس ادارے سے کتنے پیسے ملے۔ اور ان پیسوں کا کیا استعمال ہوا۔یہ جو بینکوں کی نج کاری ہوئی تھی اس کی رقم کہاں گئی؟ ایک پیسہ بھی صحت و تعلیم پر نہیں لگایا گیا۔یہ سب فراڈ ہے کہ اگر نقصان زدہ سرکاری اداروں کو اونے پونے بیچ دو تو عوام کوصحت اور تعلیم کی سہولتیں ملیں گی۔ ذرا اپنی ٹافیوں کی صنعت کے منافع میں سے صرف ایک فیصد اضافی رقم نکال کر سالانہ ایک اسکول تو بنا دیں۔ یہ کرتے ہوئے شاید جان نکلے۔ تو پھر پی آئی اے کو بیچ کھانے اور پاکستان اسٹیل کو تحفے میں دینے کی باتیں کیوں کی جاتی ہیں ۔ اور اگر خسارہ ہی بنیاد ہے تو پاکستان میں تسلسل سے خسارہ کرنے والی صرف حکومت ہے۔ ہر سال خسارے کا بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ مشیر خزانہ سے درخواست ہے کہ اس سال خسارے کا بجٹ آرہا ہو تو حکومت کی نج کاری اور کابینہ مفت میں دینے کی تجویز بھی دے دیں۔