جنگ ختم کرنا کامیابی ہے

211

گزشتہ چالیس برس سے جنگ کے شکار افغانستان میں اس کی کم و بیش تیسری نسل اس جنگ زدہ ماحول میں پیدا ہوچکی ہے ۔ اس ملک کے صدر اشرف غنی کو بعد از خرابئ بسیار معاملے کی نزاکت کا احساس ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جنگ جیتنی نہیں ختم کرنی ہے، پاکستان مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ماضی کا قیدی بنے رہنے کے بجائے دونوں ممالک کو اپنا مستقبل محفوظ کرنا چاہیے۔ آگے بڑھنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ ان کی یہ گفتگو پاکستان کے مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ سے ملاقات کے موقع پر تھی جبکہ پاکستان کے نمائندے ناصر جنجوعہ نے بھی مثبت اور حوصلہ افزا جواب دیا کہ کابل انتظامیہ کا بیان جنگ کی اندھیری سرنگ کے سرے پر روشنی کی کرن ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ، باہمی امور پر معاہدہ کرناہوگا۔ خدا جانے یہ اچھا خوشگوار ماحول کتنے دن رہے گا اور آنے والے دنوں میں کسی حملے، دھماکے یا دہشت گردانہ کارروائی کا الزام اشرف غنی ہی پاکستان پر نہ لگا رہے ہوں۔ کیوں کہ اس ساری ڈپلومیٹک گفتگو کا خاتمہ ایک دھماکے سے ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا مسئلہ پاکستان اور افغانستان کا اختلاف نہیں ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان کا مسئلہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت اور ان کے مفادات ہیں۔ جب تک بیرونی طاقتیں اور ان کے مفادات افغانستان میں کارفرما ہیں افغانستان میں امن نہیں ہوگا اور پاکستان اور افغانستان الجھتے رہیں گے۔ پاکستانی مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے ٹھیک کہا ہے کہ افغانستان کو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ظاہر سی بات ہے کہ افغانستان پاکستان کے بجائے کہیں اور کھڑا ہو جاتا ہے۔ کبھی امریکا کے ساتھ اور کبھی بھارت کے ساتھ۔ اگر اشرف غنی کی بات کو درست سمجھا جائے تو اس بات کے امکانات ہیں کہ مستقبل قریب میں پاک افغان تعلقات اور خطے کے امن میں بہتری پیدا ہوگی۔ اگرچہ افغان صدر کے خیر سگالی بیان کے ساتھ ہی افغانستان میں سیکورٹی فورسز پر حملے میں 15افراد ہلاک ہوگئے۔ پاکستان نے طالبان کو بھی پیغام دیا ہے کہ وہ مذاکرات کی نئی پیش کش قبول کرلیں۔ افغان صدر نے جنگ کے حوالے سے جو فارمولا پیش کیا ہے یہ عالمی امن کافارمولا ہے۔ اگر ساری دنیا کی طاقتیں جنگ جیتنے کے بجائے جنگ ختم کرنے کے فارمولے پر عمل کریں تو عالمی امن مہینوں یا ہفتوں نہیں دنوں کی بات رہ جائے گی۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ یا تو طاقت کا نشہ جنگ ختم نہیں ہونے دیتا یا سازشی تھیوری جنگوں کو طول دیتی ہے۔ یہ سازشی تھیوری بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی بلکہ یہ عالمی اسلحہ تاجروں کا کھیل ہے۔ انہیں اپنے ہتھیار فروخت کرنے ہیں اس کے لیے جگہ جگہ جنگ کے نئے میدان تلاش کیے جاتے ہیں چھوٹے موٹے یا بڑے طاقت ور ممالک خود کو چیمپئن سمجھ کر جنگوں کو طول دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو رہے ہیں لیکن جنگوں میں کامیاب کوئی نہیں ہوتا۔ صرف اسلحے کے تاجر کامیاب ہوتے ہیں۔ اب تک جو بڑی بڑی جنگیں ہوئی ہیں ان کا ایندھن انسان بنے ہیں۔ میدان مختلف ممالک بنے ہیں اور اب تو دنیا میں زیادہ تر جنگیں مسلمان ممالک میں لڑی جارہی ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک ایندھن، مسلم عوام نشانہ، مسلمانوں کے اسکول، اسپتال، کارخانے، عمارتیں اور سڑکیں۔ کوئی کامیاب نہیں ہوتا۔ امریکا 18سال سے افغانستان میں بم برسا رہا ہے، کامیاب نہیں ہوا۔ عراق میں بھی 2003ء سے بمباری ہو رہی ہے وہ بتائے کیا کامیابی ہوئی ۔ یمن میں سعودی اتحاد روز بمباری کررہا ہے کسے کامیابی ملی۔ شام میں ساری دنیا بمباری کررہی ہے روز بے قصور لوگ مر رہے ہیں کوئی کامیاب نہیں ہو رہا۔ ہاں میڈیائی دانشور خوب چیخ چیخ کر مسلمان ملکوں اور مسلمان حکمرانوں کو طعنے دے رہے ہیں۔ یہ مسلمان حکمران تو ایجنٹ ہیں اصل جنگ جن لوگوں نے شروع کی ہے ان کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ افغانستان کی تیسری نسل جنگوں کے ماحول میں پیدا ہوئی ہے۔ اشرف غنی اور ناصر جنجوعہ جس نکتے پر متفق ہوئے ہیں بس اسے ہی مرکزی نکتہ بنا لیں تو پاک افغان امن دور نہیں۔ اس عرصے میں دونوں ممالک کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ بھارت اور امریکا اپنے مفادات کا کھیل ضرور کھیلیں گے۔ لیکن ایک مرتبہ پاکستان اور افغانستان مل کر جنگ جتینے کے بجائے ختم کرنے کا ہدف حاصل کرلیں تو یہ دنیا کے دوسرے علاقوں کے میدانوں میں بھی امن کاراستہ بنے گا۔ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکی عزائم کیا ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کھلی دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان یا افغانستان میں کوئی کارروائی کریگا۔ ٹرمپ نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف مزید اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کو نہیں روکا تو امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے ضروری کارروائیاں کرے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان اور پاکستان دونوں امریکا سے کہیں کہ افغانستان میں اب ان کی افواج کی ضرورت نہیں۔ افغانستان میں مسلسل انتخابات ہو رہے ہیں یہاں جمہوریت قائم اور نافذ ہے۔ اب غیر ملکی افواج کی ضرورت نہیں رہی۔ پھر حقانی نیٹ ورک امریکا کا مسئلہ نہیں رہے گا۔ پھر پاکستان جانے افغانستان جانے، کون سا نیٹ ورک کس کا ہے۔