خرابی کی بنیادی وجہ

290

وطن عزیز میں پائے جانے والے سیاستدانوں کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے سچ نہیں بولتے، شاید جھوٹ ان کی گھٹی میں شامل ہوتا ہے۔ مشاہدہ اور مطالعہ بھی اس خیال کی تائید کرتا ہے۔ عوام سیاستدانوں کی ذہنی غلامی اور بڑی طاقتوں کی جی حضوری سے اس قدر تنفر اور بے زار ہیں کہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ قبر میں منکر نکیر خدا کے بارے میں سوال کریں گے تو یہ لوگ انہی کے قدموں میں سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ سینیٹ کے انتخابات کے بارے میں ٹی وی اینکرز کی ساری دانش وری عمران کے دھرنے کی طرح بے راز کن ثابت ہوئی۔ انتخابات بخیر و خوبی ہوگئے، ان انتخابات کی خوش آئند بات یہ ہے کہ عمران خان نے پہلی بار سچ بولا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ارکان اسمبلی کو خریدا گیا ہے، ملکی تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی ہے، خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں پی پی کے رکن اسمبلی برائے نام ہیں مگر سینیٹ کے انتخابات میں ان کے نئے سینیٹرز کی تعداد قابل ذکر ہے۔ خان صاحب شاید آپ یہ بات بھول رہے ہیں کہ آصف علی زرداری صاحب گھوڑوں کو سیب کا مربہ کھلانے کے شوقین ہیں اور یہ سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ سیب کا مربہ بہت لذیز اور طاقتور ہوتا ہے، جہاں معاملہ طاقت کا ہو وہاں کسی اور کی دال نہیں گلتی۔ اگرچہ یہ بات بلکہ یہ شکایت ساری سیاسی پارٹیاں ہی کررہی ہیں کہ ہمارا سیاسی نظام پیسے کے گرد گھومتا ہے اور یہ ہمارا سیاسی کلچر بن چکا ہے مگر عمران خان کا معاملہ بہت مختلف ہے وہ اپنی دھاندلی اور اپنی غلطی کو تسلیم ہی نہیں کرتے، مگر ان کا یہ کہنا کہ سینیٹ کا ووٹ لینے کے لیے تجوریوں کے منہ کھول دیے گئے ہیں، انتخابات اسمبلی کے ہوں یا سینیٹ کے، تجوریوں کے منہ چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔ اس لیے سونے کی کان کا منہ کھولنا پڑتا ہے، جہاں سیاست تجارت بن جائے وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ پنجاب سے تحریک انصاف کے منتخب ہونے والے سینیٹر صاحب کا فرمان ہے کہ پنجاب میں ان کے دوستوں نے ووٹ دیے ہیں، کمال ہے ان کو ووٹ دینے والے دوست ہیں اور خیبرپختون خوا میں دیگر پارٹیوں کو جو ووٹ ملے ہیں وہ ہارس ٹریڈنگ ہے۔ الیکشن اسمبلی کے ہوں یا سینیٹ کے، منتخب صاحب ثروت ہی ہوتا ہے، ووٹ اس کو پڑتا ہے جس کی جیب میں نوٹ ہوتے ہیں مگر اس معاملے میں سارا الزام اور ساری خرابی کی ذمے داری سیاست دانوں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ عوام بھی اس کے ذمے دار ہیں کیوں کہ انتخابات میں ان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔
بہاولپور کے ایک مرحوم سیاستدان نے بلاول زرداری کی پیدائش پر پانچ لاکھ روپے بے نظیر بھٹو کی خدمت میں پیش کیے تھے اور ٹکٹ کے حق دار بن گئے تھے۔ اس وقت ہم نے بلاول کے لیے ’’پیدا گیر‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تھا وہ سیاست دان مرحوم ہو چکے ہیں سو، ان کا نام لکھنا مناسب نہیں، تاہم ان سے متعلق ایک واقعہ قارئین کرام کو سنانے میں کوئی ہرج نہیں، کسی سلسلے میں ان سے ملاقات کرنے گئے تھے وہاں پر کچھ اور افراد بھی موجود تھے ، ایک شخص خاصا برہم دکھائی دے رہا تھا وہ بضد تھا کہ اس کا کام فوراً ہونا چاہیے، جن لوگوں نے میرے کہنے سے آپ کو ووٹ دیے ہیں اب وہ اپنا کام کرانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ جب آپ کو ووٹ کی ضرورت تھی تو میں نے اپنی ساری توانائی اور تمام وسائل آپ کو ووٹ دلانے کے لیے استعمال کیے تھے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ میں نے خود کو اپنے آدمیوں کو آپ کے لیے وقف کردیا تھا۔ مرحوم سیاستدان کا جواب بڑا حیران کن اور جرأت مندانہ تھا۔ موصوف نے جواباً کہا تھا۔ تم نے کوئی احسان نہیں کیا تھا تم نے ووٹ دلائے تھے تو اس کے عیوض منہ مانگے پیسے لیے تھے اب اگر کام کرانا ہے تو تم بھی منہ مانگے پیسے دو۔ حساب برابر ہوجائے گا۔ جہاں معاملہ حساب برابر کرنے کا ہو وہاں پر لحاظ کی کوئی حیثیت، کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ خرابی کی اصل اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ دیہی علاقے کے ووٹر اکثریت میں ہیں، الیکشن میں کامیابی کا انحصار ان کے ووٹوں پر ہوتا ہے۔ زمیندار اور بااثر طبقہ ان کا سرپرست ہوتا ہے، ان لوگوں کو قرض لینے، پٹواری اور پولیس سے نمٹنے کے لیے بااثر لوگوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے سو، ان کا ووٹ بھی بااثر لوگوں کی مرضی کے تابع ہوتا ہے۔