تین سال بہت بھاری رہے

284

رضا ربانی سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے تین سال کی مدت گزار کر سبک دوش ہوچکے ہیں‘ صادق سنجرانی اب سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ کے بجائے کچھ طے شدہ پابندیوں کے ساتھ آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوئے، چیئرمین بن گئے ہیں تو تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی انہیں اپنا نمائندہ سمجھ رہی ہیں جب کہ وہ ہوا میں تیر چلاتے ہیں اور نہ کرکٹ کھیلتے ہیں بس ڈھونڈھنے والوں نے انہیں ڈھونڈ لیا‘ مسلم لیگ (ن) نے ایوان میں اکثریت رکھنے کے باوجود رضا ربانی کے لیے غیر مشروط حمایت کی یقین دھانی کرائی تھی لیکن پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے نو تھینکس کہہ کر انہیں کھیل ہی سے باہر کردیا
رضا ربانی نے جمہوریت کے لیے جدوجہد کی، تین سال بہترین انداز میں ایوان چلایا، پارلیمنٹ ہاؤس میں دستور گلی بنائی، جس میں مارشل لا کے زمانے کو سیاہ دکھایا گیا لیکن پیپلزپارٹی کا چہرہ سامنے آیا کہ سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے جمہوریت پسند رضا ربانی پر آزاد سینیٹر کو ترجیح دی گئی‘ اقتدار اور اختیار بھی کیا چیز ہے جب آتا ہے تو ایک ایسی تحریری وصیت بھی ساتھ لاتا ہے جس میں ایک تعلیم یافتہ خاتون کی تحریر میں اسپیلنگ کی غلطی بھی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ وصیت تسلیم کی جاتی ہے۔
کسی نے سچ کہا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘ واقعی یہ بات درست، سچ اور یہی آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے‘ تاریخ بتاتی ہے کہ بادشاہت کے لیے بھائی اور بیٹے قربان کیے گئے تو حکمرانی کے لیے کی جانے والی سیاست میں بھی نعشوں پر پاؤں رکھ کر گزرجانے کی مثالیں موجود ہیں، ہمارے خطے ہی میں نہیں، مغرب میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی امر بھی حتمی نہیں پاکستان میں تو اس کا تجربہ ہر بار ہوا اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ یہاں کل کے حریف آج کے حلیف، کل کے دشمن، آج کے دوست ہوتے ہیں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جن لوگوں نے ماضی میں آپ کی کردار کشی کی انتہا کردی ہو، بلکہ رکیک سے رکیک حرکت کی ہو، جب ضرورت ہو تو ایسے حضرات وفادار دوستوں پر بھاری ہوجاتے ہیں سیاسی جماعتوں میں یہی سب بھرا پڑا ہے اور بڑے بڑے بدنام قیادت کی جھولی میں جاکر نیک نام ہوجاتے اور نیک نام اپنے اصولی موقف پر رہیں تو راندہ درگاہ ہوجاتے ہیں.
رضا ربانی ایک مثال نہیں ہیں، جو محض اصول کی بنا پر اپنا موقف پیش کرنے کی وجہ سے نہ صرف سینیٹ کی چیئرمین شپ سے محروم ہوگئے بلکہ انہیں تو سینیٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے عہدے سے بھی دور رکھا گیا یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ کہا جارہا ہے رضا ربانی کا پارلیمنٹ کی بالادستی والا موقف درست نہیں حالاں کہ ملک کی سیاسی جماعتیں اور سیاسی حضرات قائل ہیں کہ رضا ربانی نے اپنا تین سالہ دور بہت دیانت داری اور اہلیت سے نبھایا، ان کا جرم کیا ہے یہی کہ سینیٹ میں نا اہل شخص کو سیاسی جماعت کا عہدیدار بنائے جانے سے متعلق آئینی ترمیم کیوں منظور ہوئی‘ یہ گلہ ان سے تب بنتا جب وہ ووٹ برابر ہوجانے کی صورت میں اپنا کاسٹنگ ووٹ مسلم لیگ کی ترمیم کے حق میں استعمال کرتے‘ یہ جرم میاں رضا ربانی کا نہیں‘ یہ جرم توان سینیٹرز کا ہے جو ووٹنگ یا ترمیم کا مسودہ منظوری کے لیے پیش ہونے والے اجلاس سے غیر حاضر ہوئے پیپلزپارٹی کے گوہر نایاب رحمن ملک ان میں شامل ہیں قصہ مختصر یہ کہ رضا ربانی کے بجائے لیڈر آف اپوزیشن کے لیے قرعہ فال محترمہ شیری رحمان کے حق میں نکلا بلاول بھٹو نے اعلان کیا ’’ہم تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں، ایک خاتون سینٹ میں قائد حزب اختلاف ہوں گی‘‘۔ یہ ایک حد تک درست تو ہے، تاہم پہلا کریڈٹ ان کی والدہ محترمہ ہی کو جاتا ہے جو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے اعزاز کی حامل ہیں تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے فرائض بھی ادا کرچکی تھیں، سینیٹ کی حد تک ٹھیک ہے تاہم پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں بے نظیر بھٹو ہی کا نام رہے گا دعویٰ ہے کہ بھٹو کی پارٹی‘ پیپلز پارٹی جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے اصولوں پر قائم ہے اور پارلیمنٹ کی بالادستی سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے بلاشبہ پارلیمنٹ بالادست ہے لہٰذا کسی کا استحقاق مجروح نہیں ہوا ہاں یہ بات ضرور ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنے لیے اب جس راستے کا انتخاب کرلیا وہ راستہ کٹھن ضرور ہے اس کٹھن راستے میں جماعت اور اصول ساتھ چلتے رہیں تو معجزہ ہی ہوسکتا معجزے سے یاد آیا کہ رضا ربانی پارٹی سے غداری نہیں کریں گے، وفادار رہیں گے وہ بغاوت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ انہیں علم ہے کہ معراج خالد‘ فاروق لغاری‘ مصطفی کھر‘ مصطفی جتوئی جیسے بڑے نام اپنی پارٹی بنا سکے نہ چلاسکے۔
اب ایک جھلک تحریک انصاف کی‘ عمران خان کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ وہ آصف علی زرداری کے ساتھ کسی اتحاد میں شامل نہیں ہوں گے، اب وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کے ساتھ کسی اتحاد میں شامل ہو چکے ہیں اور مزہ چکھ کر واپس بھی آچکے ہیں اس یوٹرن کو چھوٹا کہیں یا بڑا‘ یہ اب اہل جمہور کی مرضی‘ اس اتحاد کی پٹاری سے پیپلزپارٹی نے بین بجا کر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار میدان میں اتار دیا‘ زور دار جوڑ کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا ہے۔