برطانیہ اور روس کے تعلقات طوفان کی زد میں

472

برطانیہ اور روس کے درمیان تعلقات گو، چار سو پینسٹھ سال پرانے ہیں لیکن ایسے کڑے نشیب و فراز سے گزرے ہیں کہ تاریخ کے اوراق لرز اٹھے ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات پھر ایک بار تباہ کن طوفان سے گزر رہے ہیں۔
نیا طوفان، لندن سے 88 میل دور جنوب میں، قرون وسطیٰ کے پرانے قصبہ سالسبری میں 4 مارچ کو اس وقت اٹھا جب اس کے شاپنگ سینٹر کے قریب ایک بینچ پر ایک شخص اپنی بیٹی کے ساتھ نیم بے ہوشی کے عالم میں بیٹھا تھا۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر پولیس ان کی مدد کو آئی اور انہیں فوراً اسپتال لے گئی۔ جہاں ان کی حالت نازک بتائی گئی۔
تفتیش سے پتا چلا کہ یہ 66 سالہ روسی ڈبل ایجنٹ سرگئی اسکریپل ہے اور اس کی 33 سالہ بیٹی لو لیا ہے۔ سرگئی اسکریپل روسی فوج میں کرنل تھا اور روس کا جاسوس تھا۔ بیس سال قبل برطانیہ کی جاسوسی ایجنسی MI6 نے اسے اپنے جال میں پھانسا اور اپنا جاسوس بنا لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ سرگئی اسکریپل نے ان تمام روسی جاسوسوں کے نام افشا کر دیے جو یورپ اور امریکا میں سرگرم عمل تھے۔ 2004 میں یہ ڈبل جاسوس ماسکو میں گرفتار کیا گیا تھا اور 2006 میں اسے روسی عدالت نے 13سال قید کی سزا سنائی تھی۔ چھ سال بعد جولائی 2010 میں امریکا کی ایف بی آئی کی قید میں دس روسی جاسوسوں کے عوض رہائی پانے والے چار روسی جاسوسوں میں یہ شامل تھا اور اسے برطانوی حکومت کے حوالہ کردیا گیا تھا۔ سرگئی اسکریپل نے برطانوی شہریت حاصل کر کے سالسبری میں سکونت اختیار کی تھی۔
سالسبری میں سرگئی اسکریپل کی بے ہوشی کے بارے میں کئی روز کی تفتیش اور پوری طرح جانچ پڑتال کے بعد اس کی تصدیق ہوگئی کہ ان پر نہایت خطرناک اعصابی زہر کا حملہ کیا گیا تھا۔ ان دونوں کی مدد کرنے اور انہیں اسپتال لے جانے والا پولیس افسر بھی اس زہر سے متاثر ہوا اور وہ بھی انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں زیر علاج ہے۔
دس روز تک اس اعصابی زہر کے تجزیے کے بعد وزیر اعظم تھریسا مے نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ سرگئی اسکریپل اور اس کی بیٹی پر جس اعصابی زہر کا حملہ ہوا ہے وہ روس میں تیار کردہ ہے انہوں نے روس کو چوبیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیا کہ وہ یہ بتائے کہ آیا وہ اس حملے کے پیچھے ہے یا یہ اعصابی زہر اس کے کنٹرول سے نکل گیا تھا۔ جب روس نے حقارت کے ساتھ اس الٹی میٹم کو ٹھکرا دیا اور کہا کہ ایک جوہری طاقت سے اس طرح بات نہیں کی جاتی، تو تھریسا مے نے روس کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کیا۔ 23روسی سفارت کاروں کو ایک ہفتہ کے اندر اندر برطانیہ سے نکل جانے کا حکم دیا، روس کے وزیر خارجہ کا دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ ماسکو میں اگلی گرمیوں میں فٹ بال کے ورلڈ کپ میں برطانیہ کی کوئی اہم شخصیت یا شاہی خاندان کا کوئی فرد نہیں جائے گا اور برطانیہ میں مال دار روسیوں کے مالی معاملات پر کڑی نگاہ رکھی جائے گی اور برطانیہ آنے والے روسیوں کی سخت جانچ پڑتال ہوگی۔
جیسے کہ توقع تھی روس نے بھی جوابی کارروائی کی ہے اور برطانیہ کے 23سفارت کاورں کو روس سے نکل جانے کا حکم دیا ہے اور اسی کے ساتھ روس میں برطانوی ثقافتی مرکز برٹش کونسل کو بند کردیا ہے۔ روس نے سینٹ پیٹرس برگ میں برطانوی قونصل خانہ کھولنے کی اجازت منسوخ کر دی ہے۔
تھریسا مے نے سالسبری کے حملہ کے جواب میں روس کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کیا تو پہلی بار پارلیمنٹ نے متحدہ طور پر ان سے یک جہتی اور ان کی حمایت کا اظہار کیا، سوائے لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کے جنہوں نے اس حملہ کا الزام پیوٹین پر لگانے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ ایسی شہادت دیکھنا چاہتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ اس حملہ کے پیچھے دراصل کس کا ہاتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق کی جنگ کے جواز کے لیے مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی صدام حسین کے جوہری اسلحہ کے بارے میں دروغ گوئی اور مبالغہ آمیزی کے تلخ تجربہ کے بعد ٹھوس شہادت کی ضرورت ہے۔ جیریمی کوربن کے اس بیان پر خود ان کی لیبر پارٹی کے بہت سے اراکین نے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
بہت سے مبصرین نے جیریمی کوربن کی رائے سے اتفاق کیا ہے، خاص طور پر عراق کی جنگ کے سلسلے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی کے پیش نظر۔ بعض حلقوں کی طرف سے یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ اگر روسیوں کو ڈبل ایجنٹ سرگئی اسکریپل کو قتل کرنا تھا تو اس وقت جب یہ غداری کے الزام میں چار سال تک روسی جیل میں قید تھا تو بڑی آسانی سے اسے ختم کیا جاسکتا تھا۔ 2010 میں اسکریپل کو امریکا میں قید روسی جاسوسوں کے تبادلہ میں رہا کیا گیا تھا اور برطانیہ کے حوالہ کیا گیا تھا جہاں اسے برطانوی شہریت دی گئی تھی۔ پھر سوال یہ ہے کہ سر گئی اسکریپل آٹھ سال تک سالسبری میں رہا۔ اتنے عرصہ کے بعد آخر کیوں اس پر اعصابی زہر کا حملہ کر کے اسے قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اگر اس حملہ کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے تو ممکن ہے روسیوں کو اس کا یقین ہوگا کہ قیدیوں کے تبادلہ کے بعد سرگئی اسکریپل، برطانوی خفیہ ایجنسی MI6 کے لیے بدستور کام کر رہا ہوگا جو روس کو ناقابل قبول تھا۔
روسیوں کی طرف سے یہ استدلال پیش کیا جارہا ہے کہ ایک تو برطانیہ نے اس اعصابی زہر کے بارے میں روس کو تفصیل نہیں بتائی ہے تاکہ یہ پتا چل سکے کہ آیا یہ روس کا تیار کردہ ہے یا نہیں۔ روسیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کلاشنکوف روسی بندوق ہے لیکن اگر یہ بندوق کسی کے قتل کے لیے استعمال کی جاتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس قتل کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے۔
امریکا اور یورپ کے ممالک کی طرف سے تھریسا مے سے یک جہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے سالسبری حملہ کے سلسلہ میں تھریسا مے کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے لیکن سیاسی مبصرین کی رائے میں ٹرمپ اس سے زیادہ کچھ نہیں کریں گے کیوں کہ ان پر پیوٹین کا ایسا جادو چڑھا ہوا ہے کہ وہ پیوٹین کے خلاف کھل کر کوئی الزام عاید کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے ہیں۔
جرمنی کا انرجی کے شعبے میں روس پر اتنا دارومدار ہے کہ وہ برطانیہ کی خاطر روس سے مخاصمت مول نہیں لے سکتا۔ جرمنی چالیس فی صد تیل روس سے درآمد کرتا ہے اور اپنی ضروت کی پینتیس فی صد گیس روس سے خریدتا ہے۔ فرانس کے بھی روس سے گہرے تجارتی اور سیاسی روابط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کے صدر میکرون نے سالسبری حملے میں روس کے ہاتھ کے بارے میں برطانیہ سے ٹھوس شہادت مانگی ہے۔ اٹلی اور یورپ کے دوسرے ممالک برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ وہ اس وقت برطانیہ کی کھلم کھلا حمایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس کا خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ روس کے ساتھ اس معرکہ آرائی میں کہیں برطانیہ تن تنہا نہ رہ جائے۔
جہاں تک برطانیہ اور روس کے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ کوئی نیا طوفان نہیں ہے۔ انیسویں صدی میں برطانیہ اور روس ایک عرصہ تک فرانس کے نپولین کے خلاف اتحادی ہونے کے بعد 1850 میں کرایمیا کی جنگ میں ایک دوسرے کے مد مقابل اور دشمن تھے۔ پھر انیسویں صدی کے آخر میں وسط ایشیاء پر کنٹرول کے لیے ایک دوسرے کے حریف تھے اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے کوشاں تھے جسے گریٹ گیم کہا جاتا ہے۔ پہلی اور دوسری عالم گیر جنگوں میں برطانیہ اور روس پھر ایک بار اتحادی تھے لیکن انقلاب روس کے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے اور 1989 تک دونوں سرد جنگ میں ایک دوسرے پر تلوار تانے کھڑے رہے۔ 1930 اور 1950 کے دوران برطانیہ اور سوویت یونین کے درمیان جاسوسی کے میدان میں بڑے زبردست معرکے رہے ہیں۔ برطانیہ کی یونیورسٹیاں خاص طور پر آکسفورڈ اور کیمبرج، روسی جاسوسوں کی بھرتی کے گڑھ تھے۔
سویت یونین کی مسماری کے بعد دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے اور مالدار روسیوں نے برطانیہ میں سرمایہ کاری شروع کی اوران کا مالی اثر و رسوخ بڑھا۔ پچھلے دنوں یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ لندن میں بیس ہزار جائدادیں آف شور کمپنیوں کے توسط سے روسی کروڑ پتیوں کی ملکیت ہیں۔