لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے عدالت کا نوٹس

349

عدالت عالیہ سندھ نے لاپتا افراد سے متعلق محکمہ داخلہ، آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز اور دیگر کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ عدالت عالیہ کا دو رکنی بینچ لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کررہاتھا۔ عدالت نے مذکورہ حکام کو 5 اپریل تک تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے اور یہ ہدایت بھی کی کہ لاپتا شہریوں کو بازیاب کراکے عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالتیں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے بھرپور کوشش کررہی ہیں لیکن ایسے لوگوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھاگیا۔ بڑا ستم یہ ہے کہ جب کسی کے لواحقین تھانے سے رجوع کرتے ہیں تو کوئی توجہ نہیں دی جاتی، شاید اس لیے کہ پولیس کے علم میں ہوتا ہے کہ ان افراد کو کس نے اٹھایا ہے۔ نقیب اﷲ محسود کے قتل کے حوالے سے سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور اس کی اغوا کار ٹیم کے کئی کارنامے سامنے آچکے ہیں لیکن ابھی نجانے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ 6 ماہ پہلے بھی کراچی کے دو نوجوان سید نبیل اختر اور جنید اقبال کو’’ نامعلوم‘‘ افراد نے اغوا کیا تھا۔اول الذکر چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کے آخری سال کا طالب علم تھا اور جنید اقبال ٹیکسٹائل انجینئر ہے۔ ان دونوں کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ ان کو امریکا سے اتحاد کے خلاف پمفلٹ بانٹنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ گو کہ ان کا تعلق کالعدم حزب التحریر سے ہے لیکن یہ ایسا جرم نہیں کہ انہیں غائب کردیا جائے۔ اگر کوئی جرم بنتا ہے تو ایف آئی آر درج کرکے انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ ان نوجوانوں کے لواحقین کو خدشہ ہے کہ کہیں یہ بھی راؤ انوار کے گینگ کا کام نہ ہو اور چونکہ راؤ انوار اور اس کا گینگ اس وقت خود چھپتا پھر رہا ہے تو ایسا نہ ہو کہ انہیں کہیں ڈال کر بھلادیا گیا ہو۔ ایسا بھی کئی بار ہوا ہے کہ لاپتا افراد کی کہیں سے لاش ہی ملی یا وہ جعلی پولیس مقابلے میں ماردیے گئے۔ عدالت عالیہ مذکورہ نوجوانوں کی بازیابی کے معاملے کو بھی زیر سماعت مقدمے میں شامل کرلے اور متعلقہ حکام کو ان کی بھی بازیابی کا حکم جاری کرے۔