جامعات ترمیمی بل اور گورنر کی ذمے داری

343

سندھ حکومت کی جانب سے منظور کردہ جامعات ترمیمی بل نے اساتذہ اور طلبہ میں نئے خدشات پیدا کردیے اور سندھ حکومت نے بیٹھے بٹھائے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیا۔ اس بل کی منظوری سے پہلے جامعات کا چانسلر گورنر ہوتا تھا جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کی من مانی پر ایک روک لگی ہوئی تھی مگر اب سب کچھ وزیراعلیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں ویسے ہی حکومت سندھ کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ گزشتہ پیر کو اس مسئلے پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے گورنر سندھ سے ملاقات کی اور ان سے اپیل کی کہ بل پر دستخط نہ کیے جائیں۔ صوبائی کابینہ سے منظور کردہ کوئی بل اس وقت تک قانون نہیں بنتا جب تک گورنر دستخط نہ کردے۔ لیکن حکومت سندھ جس روش پر گامزن ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ بل پر عمل کے لیے کوئی اور راہ ضرور نکال لے گی۔ حافظ نعیم الرحمن نے اس بل کے مضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاہے کہ اس سے جامعات کی آزادی و خود مختاری ختم ہوجائے گی اور سیاسی مداخلت سے تعلیمی ماحول پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ حافظ نعیم الرحمن نے انتباہ کیا ہے کہ جامعات ترمیمی بل سے عوامی حلقوں اور طلبہ میں تشویش پھیل گئی ہے۔ سندھ حکومت کی لوٹ مار نہیں چلنے دیں گے اور اسے روکنے کے لیے موثر افراد کو ساتھ ملاکر تحریک چلائیں گے اور 8 اپریل کو جامعات بچاؤ، تعلیم بچاؤ کنونشن ہوگا۔ حیرت ہے کہ کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز اور شہر پر تسلط کے دعویدار عناصر ہر عوامی مسئلے پر چپ سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن یہ جماعت اسلامی ہے جو شناختی کارڈ بنانے میں نادرا کی من مانی ہو یا کے الیکٹرک کی عوام دشمن حرکتیں وہ میدان میں نکل آتی ہے۔ گورنر سندھ نے جماعت اسلامی کے وفد کو یقین تو دلایا ہے کہ وہ اس بل کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کریں گے اور بل کو منظور نہیں کیا جائے گا۔ ممکن ہے سندھ حکومت اسے صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دے لیکن پیپلزپارٹی کے معقول افراد خود بھی اس کے مضمرات پر غور کریں اور انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ اس بل کے حوالے سے معروف دانشور اور ماہر تعلیم پروفیسر شمیم اختر کا کہناہے کہ مجوزہ بل پر اساتذہ تنظیموں کا اعتراض ہے کہ اس طرح جامعات میں صوبائی حکومت کے نمائندوں کی تعداد جامعات کے ملازمین سے بڑھ جائے گی۔ وزیراعلیٰ کو چانسلر بنایاگیا تو جامعات میں داخلے اور تدریسی و غیر تدریسی اسامیوں پر تقرر کی مجاز صوبائی حکومت ہوگی۔ اس کے نتیجے میں اساتذہ برادری نوکر شاہی کے رحم و کرم پر ہوگی۔ حکومت سندھ کا موقف یہ ہے کہ چونکہ تعلیم کا شعبہ آئین کی رو سے صوبائی حکومت کے تحت ہے اور حکومت ہی جامعات کو درکار رقوم فراہم کرتی ہے اس لیے اس کا عمل دخل لازمی ہے۔ پروفیسر شمیم اختر نے بھٹو کی 1974ء کی پالیسی کا حوالہ دیا ہے کہ وہ بہت کامیاب رہی کہ انہوں نے سینڈیکیٹ میں طلبہ، اساتذہ اور حکومت کے نمائندوں کو شامل کیا تھا جس سے توازن اور ہم آہنگی سے کام ہوتا تھا تاہم اس میں غیر تدریسی ملازمین کی نمائندگی نہیں تھی۔ حکومت سندھ نے تو مذکورہ بل کے ذریعے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا جس سے اساتذہ کی تنظیموں میں بجا طور پر تشویش پائی جاتی ہے۔ تمام متعلقہ طبقات کو اعتماد میں لیے بغیر ترمیمی بل منظور کرلینا حکومت سندھ کے عزائم کا عکاس ہے۔