گھر کو بچوں کے لیے محفوظ بنایئے

798

ڈاکٹر حسن خالد زبیری
تجسس بچوں کی فطرت ہے۔ اس لیے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کوئی ایسی چیز جو بچے کے تجسس کو اکسائے، اس کے لیے نقصان کا باعث نہ بنے۔
گھرپر بچوں کی حفاظت کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ بہت چھوٹے بچوں کو سوتے جاگتے کھیلتے، دودھ پیتے، ہر وقت نظر میں رکھنا چاہیے جبکہ 4 ماہ کی عمر میں جب بچہ کروٹ لینے کے قابل ہوجاتا ہے تو اس پر اور زیادہ نظر رکھنی پڑتی ہے کہ وہ کسی بھی وقت بستر سے گرسکتا ہے۔
گھٹنوں کے بل چلنے والے بچوں کو اور بھی زیادہ نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ بچہ بنیادی طور پر تجسس کا شکار ہوتاہے اس لیے اس کی پہنچ میں کوئی ایسی چیز نہ رہنے دیں جس سے اسے نقصان پہنچنے کا امکان ہو۔
جب تک بچہ سمجھ دار نہ ہوجائے اسے بہت سے گھریلو حادثات کا امکان رہتا ہے۔ کسی ممکنہ حادثے سے بچنے کے لیے ذیل میں چند مشورے دیے گئے ہیں۔
باورچی خانے میں احتیاط :
باورچی خانے میں بچے کو کبھی اکیلا نہ چھوڑیں اور اس پر مستقل نظر رکھیں۔ روزانہ شعبہ حادثات میں لائے جانے والے بچوں کی تعداد جو گرم تیل، اُبلتے پانی، چائے یا سالن سے جلے ہوں یا تیز چھری سے کٹ گئے ہوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچن بچوں کے لیے انتہائی غیر محفوظ جگہ ہے۔ کوشش کریں کہ گرم اشیا کو فرش پر بچے کی پہنچ میں نہ رکھیں۔ چائے پیتے وقت اس بات کا دھیان کریں کہ بچہ جھپٹ کر اپنے اوپر چائے نہ گرالے۔ تیز کاٹنے کی چیزیں مثلاً چھری وغیرہ کو بھی دراز میں بند رکھیں یا اونچائی پر ایسی جگہ رکھیں جہاں بچے کا ہاتھ نہ جاتا ہو۔
چھت، سیڑھیوں، کھڑکی کے نزدیک احتیاط :
چھت ، سیڑھیوں یا کھڑکیوں سے گر کر زخمی ہونے والے بچوں کی تعداد بھی حادثات کے شمار میں بہت زیادہ ہیں۔ بسنت کے دنوں میں بہت سے بچے چھتوں سے گرجاتے ہیں اور تفریح سانحے میں بدل جاتی ہے۔ چھتوں پر منڈیر ضرور تعمیر کریں یا حفاظت کے لیے گرل لگوائیں۔ سیڑھیوں سے گرنے پر بچے کے دماغ پر چوٹ آسکتی ہے جو بچے کو ساری عمر کے لیے محتاج کرسکتی ہے۔ سیڑھیوں کے اوپر کے سرے پر اور نیچے عام لکڑی یا لوہے کا گیٹ لگوائیں۔ اس کے ساتھ بچے کو مناسب عمر میں سیڑھیوں سے اترنے چڑھنے کا طریقہ بھی سکھائیں تاکہ وہ جلد ازجلد اس قابل ہوجائے کہ خود سیڑھیاں اُترنا اور چڑھنا سیکھ جائے۔ ایسی کھڑکیاں بند رکھیں جن پر گرل نہ لگی ہوں یا ان پر فوراً گرل لگوائیں۔ غیر محفوظ کھڑکیوں کے نزدیک کوئی ایسا فرنیچر نہ رکھیں کہ جس پر چڑھ کر بچہ باآسانی کھڑکی تک پہنچ سکے۔ چونکہ کھڑکی سے باہر کی دنیا بچے کے لیے انتہائی دلچسپ ہوتی ہے اس لیے ان کھڑکیوں کے نزدیک احتیاط بھی ضروری ہے۔
بیڈ روم میں احتیاط:
ماہرین کا خیال ہے کہ ایک سال سے کم عمر بچے کو نرم تکیے پر سونے کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔ مغربی ممالک میں بالکل چھوٹے بچوں کو نرم تکیے سے دم گھٹنے کے واقعات کثرت سے سامنے آتے ہیں اس کے علاوہ دودھ کی بوتل کو تکیے کے ساتھ ٹیک لگاکر بچے کے منہ میں دے کر چھوڑ دینے سے بچے کو کسی بھی وقت دودھ کا گھونٹ بھرنے پر پھندہ لگ سکتا ہے جس سے بچے کا دم گھٹ سکتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو اکیلے بستر پر نہ چھوڑیں۔ گرنے پر سر کی چوٹ سے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بجلی کے پلگ اور ساکٹ ، تاروں اور بجلی کے ہیٹر وغیرہ سے بستروں کو دور رکھیں۔
شیشے کے دروازے بھی بچے کا سر لگنے سے ٹوٹ سکتے ہیں اور ٹوٹے ہوئے ٹکڑے بچوں کو شدید زخمی کرسکتے ہیں۔ ان شیشوں پر شفاف ٹیپ لگائیں تاکہ ٹوٹنے پر نہ بکھریں اور باعث نقصان نہ بنیں۔
غسل خانے میں:
پانی جیسی بے ضرر شے ذرا سی لاپروائی برتنے پر چھوٹے بچوں کے لیے موت کا پیغام بن سکتی ہے۔ اگر کسی سبب چھوٹے بچے کو نہلاتے وقت ٹیلی فون یا دروازہ دیکھنے جانا پڑے تو بچے کو تولیے میں لپیٹ کر ساتھ لے جائیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے بچے بالٹی میں تھوڑے سے پانی میں بھی ڈوب سکتے ہیں۔ کبھی باتھ روم میں بالٹی پانی سے آدھی بھری رکھی ہوتو بچہ اندر دیکھنے کے تجسس میں اس کے اندر منہ کے بل گرسکتا ہے اور ڈوب سکتا ہے۔ باتھ روم کا دروازہ ہر حالت میں بند رکھیں۔ پانی پر پھسل کر گرنے سے شدید چوٹ لگ سکتی ہے اس لیے غسل خانے کے فرش کو ہمیشہ خشک اور صاف رکھیں۔
بجلی کا سامان:
گرم استری سے بچوں کو بچانے کا خاص خیال کریں۔ استری کو کبھی گرم حالت میں بچوں کی پہنچ میں نہ رکھیں۔ بجلی کے تاروں کو راستے میں نہ چھوڑیں۔ استعمال کے بعد تاروں کو لپیٹ کر رکھیں۔ بچوں کی انگلیاں اس قدر چھوٹی ہوتی ہے کہ وہ انہیں باآسانی دیوار میں لگے ساکٹ میں ڈال سکتے ہیں۔ اس حادثے سے بچائو کے لیے ساکٹ پر ٹیپ لگادینی چاہیے یا ان کے آگے کوئی میز یا شیلف وغیرہ رکھ لینا چاہیے تاکہ وہ بچوں کی پہنچ سے دور ہوں۔ قالین کے نیچے سے گزرنے والی تاریں اکثر جگہ جگہ سے بوسیدہ ہوجاتی ہیں۔ ان تاروں کو فوراً مرمت کریں۔ بجلی کے سامان کو پانی کے نزدیک استعمال نہ کریں۔
سواری میں:
پبلک ٹرانسپورٹ ہو یا سائیکل، موٹر بائیک، اسکوٹریا موٹر کار، بچوں کو سواریوں میں سب سے زیادہ شرارتیں سوجھتی ہیں۔ موٹر بائیکل اسکوٹر یا سائیکل جیسی کھلی سواریوں میں بچوں کو سر کی چوٹ سے بچانا بہت ضروری ہے۔ اس بات کا حکومت کی طرف سے خاص اہتمام کیا جانا چاہیے کہ چھوٹے بچوں کے سائزکے ہیلمٹ تیار کیے جائیں اور سستے داموں بیچے جائیں موٹر کار میں اس بات کا خیال رکھیں کہ ماں کی گود میں بیٹھے والے بچوں کو آگے کی سیٹ میں نہ لے کر بیٹھیں۔ بچے اکثر گاڑی میں کھڑے ہو جاتے ہیں یا آگے کی دونوں سیٹوں میں بچے کا سر بھی ٹکرا سکتا ہے کھڑکی سے باہر لٹکنے اور سر یا ہاتھ باہر نکالنے سے بھی منع کریں۔ بچے کو گاڑی میں اکیلا کبھی نہ چھوڑیں۔
نقصان دہ اشیا اور دوائوں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں:
فرش صاف کرنے کے لیے فینائل، ڈیٹول، مٹی کا تیل، اسپرٹ سب انتہائی زہریلی اشیا ہیں۔ ان کو بھی کسی الماری میں تالا لگا کر بچے کی پہنچ سے دور رکھیں۔
چھوٹے بچوں کو ہر چیز منہ میں ڈالنے کا خاص شوق ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی بڑے کی دوا بچوں کی پہنچ میں ہو تو اسے کھا سکتا ہے۔ اکثر ادویات بچوں کی ٹافیوں سے مشابہ ہوتی ہے اس لیے بڑے بچوں کو بھی ان کو کھانے میں دھوکا ہو سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ بچے کی پہنچ سے دور رکھیں۔ مٹی کا تیل یا کوئی بھی دوا یا بچوں کے لیے خطرناک چیز، شربت یا کولڈ ڈرنک کی بوتل میں نہ رکھیں۔
غیر محفوظ کھلونے:
کنچے، بٹن اور کھلونوں کے ٹوٹے ہوئے پرزے چھوٹے بچوں کے تجسس کا خاص نشانہ ہوتے ہیں۔ یہ چیزیں بچے منہ میں ڈال لیتے ہیں۔ منہ سے برقت چیز کا پتا نہ لگنے کی صورت میں سانس کی نالی میں پھنسنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچے پھلوں کے بیج، چنے، مونگ پھلی وغیرہ کان یا ناک میں چڑھا لیتے ہیں کسی عضو میں کچھ پھنس جانے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
بچے اور ادویات:
عام طور پر بیمار پڑنے پر بچے دوا نہیں کھاتے بلکہ اُلٹا ہنگامہ مچا دیتے ہیں۔ بچوں کی بڑی تعداد بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوئے کترانی ہے۔ غالباً انجکشن کا ڈر انہیں لرزا دیتا ہے۔ دوسری طرف عام حالات میں گھر میں دوا رکھنا اور انہیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھنا خاص کڑا مرحلہ ہوتا ہے۔ بچے گھروں میں جو کھیل کھیلتے ہیں ان میں ڈاکٹر ڈاکٹر بہت مقبول ہے۔ ایک بچہ ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ باقی بچے مریض، دوا کے طور پر رنگ برنگی گولیاں اور رنگ دار پانی یا شربت استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بات کا امکان بھی رہتا ہے کہ بچے کھیل کے لیے گھر میں موجود ادویات ہی استعمال نہ کر بیٹھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر صاحب نے مریض کو اپنے ہی سامنے دوا کھانے کا حکم دیا اور بے چارہ مریض کوئی نقصان دہ دواکھانے پر مجبور ہو جائے۔
دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں بظاہر یہ عام جملہ ہے لیکن اس پر عمل بے حد ضروری ہے۔ بچے اپنی نادانی میں یا کھیل کھیل میں کوئی بھی دوا کھا یا پی سکتے ہیں۔ یہ ہوتی بھی تو رنگ برنگی اور مختلف ذائقوں والی، بالکل بچوں کی پسندیدہ سوئٹس اور شربت کی طرح۔ کچھ والدین دوا نہ پینے والے بیمار بچوں کو لالچ دیتے ہیں کہ یہ دوا انہیں بنٹی ہے یا مزے مزے کا شربت ہے۔ مشابہت سے بچوں کو دھوکا دیا جا سکتا ہے لیکن وہ اسے سچ سمجھ لیتے ہیں اب وہ کسی وقت دوا کی گولیاں بنٹی سمجھ کر کھالیں یا مزے مزے کا شربت اپنے طور پر پی لیں تو انہیں قصور وار ٹھہرانا ناانصافی ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیںکچھ بھی کر سکتے ہیں مگر آپ تو بچہ نہیں ہیں۔ لہٰذا آپ خیال رکھیں کہ:
گھر میں بلا ضرورت ادویات جمع نہ ہوں۔
ضروری ادویات محفوظ طریقے سے رکھی جائیں۔
بچوں کو آسان انداز میں سمجھائیں کہ یہ دوائیں ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں نہیں ہیں۔
استعمال میں نہ آنے والی ادویات کو ضائع کردیں۔
بچ جانے والی ادویات جمع کرکے ضرورت مندوں تک پہنچانے والے رفاہی اداروں کو دی جاسکتی ہیں۔
میڈیکل کی مفت سہولت کو اپنا لازمی حق نہ سمجھیں او گھر کو دواخانہ مت بنائیں۔
رکھی گئی ادویات کو پابندی سے چیک کریں۔ ان کے استعمال کی حتمی مدت کا خیال رکھیں تاکہ وقت گزرنے کے بعد انہیں ضائع کیا جاسکے۔
ادویات کو ادویات کے مخصوص ڈبے میں رکھیں۔ ادویات کی بوتلوں پر موجود لیبل لگے رہنے دیں۔
یہ ممکن ہے کہ آپ کی احتیاط کے باوجود کوئی بچہ اپنی حماقت یا بھولے پن میں کوئی دوا کھالے اس صورت میں اسے برا بھلا کہنے یا مارنئے پیٹنے کے بجائے آپ وہ کریں جو آپ کے اور بچے کے حق میں ضروری ہے۔
فوری طور پر جائزہ لیں کہ بچے نے کونسی دوا کھائی ہے۔ اندازاً اس کی مقدار کیا ہو سکتی ہے۔
جائزہ میں زیادہ وقت صرف نہ کریں۔ اور بچے کو فوری طور پر اسپتال لے جائیں۔
وہ بوتل یا ڈبہ بھی ساتھ لے جائیں تاکہ معالج کو علاج تجویز کرنے میں آسانی ہو۔
اپنے طور پر کوئی تدبیر کرنے کی کوشش مت کریں۔
بعض اوقات مغالطے میں دوا کی جگہ کوئی اور دوا یا کوئی نقصان دہ شے کھائی جا سکتی ہے، اس صورت میں معالج سے فوری رابطہ اور اسے حقیقت سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔
موجودہ دور کے بچے ذہین ہیں، بھلی بری باتوں کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ آپ انہیں دوائوں سے دور رہنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلنا ہی چاہتے ہیں تو انہیں کھلونا آلات دلائے جا سکتے ہیں۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کھیل میں انجکشن کے لیے استعمال شدہ سرنج نہایت ہی خطرناک امکانات رکھتی ہے۔ یہ سرنج بچے کہیں سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا انہیں سختی سے تنبیہ کیجیے کہ وہ ایسی حرکت نہ کریں اپنے گھر میں استعمال شدہ یا غیر استعمال شدہ سرنج کبھی نہ رکھیں۔